مکاتب کی طرف سے بدل کتابت کی جزوی عدم ادائے گی کا مسئلہ
راوی:
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " من كاتب عبده على مائة أوقية فأداها إلا عشر أواق أو قال : عشرة دنانير ثم عجز فهو رقيق " . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " إذا أصاب المكاتب حدا أو ميراثا ورث بحساب ما عتق منه " . رواه أبو داود والترمذي وفي رواية له قال : " يودى المكاتب بحصة ما أدى دية حر وما بقي دية عبد " . وضعفه
الفص الثالث
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد ( حضرت شعیب ) سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اگر کسی شخص نے اپنے غلام کو سو اوقیہ کے بدلے مکاتب کیا اور اس غلام نے سب اوقیے ادا کر دیئے مگر دس اوقیے ادا نہ کر سکا یا یہ فرمایا کہ " دس دینار ادا نہ کر سکا ( یہاں راوی کو شک ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس اوقیہ فرمایا تھا یا دس دینار کا ذکر کیا تھا ) اور پھر وہ اس باقی کی ادائے گی سے عاجز ہو گیا تو وہ مکاتب ( بدستور ) غلام ہی رہے گا ۔ " ( ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ )
تشریح :
ابن مالک فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مکاتب کا اپنے بدل کتابت کے کچھ حصے کی ادائے گی سے قاصر رہنا پورے بدل کتابت کی ادائیگی سے قاصر رہنا ہے لہٰذا ایسی صورت میں مالک کو اس کی کتاب فسخ کر دینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے اور فسخ کتابت کے بعد وہ مکاتب بدستور غلام رہتا ہے ، نیز حدیث کے الفاظ (فھو رقیق) سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس مکاتب نے اپنے بدل کتابت کا جو کچھ حصہ مالک کو ادا کر دیا ہے وہ اس مالک ہی کی ملکیت رہے گا ۔
اور حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر تے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اگر کوئی مکاتب " دیت یا میراث کا مستحق ہو جائے تو اس کو ( اس دیت یا میراث کا ) صرف اس قدر حصہ ملے گا جس قدر وہ آزاد ہوا ہے ۔ ( ابوداؤد ، ترمذی ) اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " مکاتب کو دیت میں اس حصہ کے بقدر مال دیا جائے گا جو وہ اپنی آزادی کی قیمت ( یعنی بدل کتابت ) میں سے ادا کر چکا تھا ، اور اس حصہ کے بقدر قیمت دی جائے گی اور ابھی بطور غلام باقی ہے ، اس روایت کو ترمذی نے ضعیف کہا ہے ۔ "
تشریح :
" دیت یا میراث کا مستحق ہو جائے " کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مکاتب کسی دیت یا کسی میراث کا حقدار ہو جائے تو اس دیت یا میراث میں سے اس کو اسی قدر ملے گا جس قدر وہ آزاد ہوا ہے اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاتا ہے کہ زید کسی شخص کا غلام تھا اس کے مالک نے اس کو مکاتب کیا ، اور زید نے ابھی اپنے بدل کتابت میں سے آدھا ہی حصہ اپنے مالک کو ادا کیا تھا کہ اس کا باپ مر گیا جو ایک آزاد شخص تھا لیکن اس نے اپنے اس مکاتب بیٹے یعنی زید کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں چھوڑا تو اس صورت میں زید اپنے مرحوم باپ کی وراثت میں صرف آدھے حصے کا حقدار ہوگا ۔ یا دوسری صورت جس کو دوسروں نے بیان کیا ہے ، یہ ہو کہ اس مکاتب نے اپنے بدل کتابت میں سے آدھا حصہ اپنے مالک کو ادا کیا تھا کہ کسی نے اس ( زید ) کو قتل کر دیا تھا ، اس صورت میں قاتل اس مکاتب کے آدھے آزاد حصہ کی دیت تو اس کے ورثاء کو ادا کرے گا اور اس کے آدھے غلام حصہ کی دیت جو اس کی قیمت کا بھی آدھا حصہ ہے ، اس کے مالک کو ادا کرے مثلاً بکر نے اپنے غلام زید کو ایک ہزار کے بدلے مکاتب کیا ویسے زید نے غلام ہونے کی حی ثیت سے سو روپے کی قیمت کا تھا ، مکاتب ہونے کے بعد زید اپنے مالک بکر کو اپنے بدلے کتابت کے مقررہ ایک ہزار روپے میں سے پانچ سو روپے ہی ادا کر پایا تھا کہ کسی شخص نے اس کو قتل کر دیا ، اس صورت میں قاتل زید کے ورثاء کو پانچ سو روپے ادا کرے گا جو اس کی آزادی کی قیمت ( یعنی بدل کتابت ) کا نصف حصہ ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے مالک بکر کو پچاس روپے ادا کرے گا جو اس کی اصل قیمت کا نصف حصہ ہے ۔
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مکاتب اپنے بدل کتابت میں سے جو مقدار مالک کو ادا کر دے گا اس کے بقدر وہ آزاد ہو جائے گا اور جو مقدار ادا نہیں کرے گا اس کے بقدر غلام رہے گا چنانچہ اس حدیث پر صرف امام نخعی نے عمل کیا ہے لیکن جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے جس کو کسی مسلک کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا بلکہ یہ ان دونوں حدیثوں کے معارض بھی ہے جو اس سے پہلے بروایت حضرت عمرو ابن شعیب نقل ہو چکی ہیں جن سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے کہ مکاتب کے ذمہ جب تک بدل کتابت کا کچھ حصہ بھی باقی رہے گا وہ غلام ہی رہے گا ۔