غلام کو آزاد کرنے کا بیان۔
راوی:
آزادی کی شرعی حیثیت
شرعی نقطہ نظر سے " آزادی " دراصل ایک ایسی قوت حکمیہ کا نام ہے جو انسان کو اس کا یہ فطری اور پیدائشی حق دیتی ہے کہ وہ مالک ہونے ، سر پرست بننے اور شہادت ( گواہی ) دینے کا اہل بن جائے ، چنانچہ جس انسان کا یہ فطری اور پیدائشی حق مسلوب ہوتا ہے بایں طور کہ وہ کسی غلامی میں ہوتا ہے اور پھر اسے آزادی کی صورت میں یہ قوت حکمیہ حاصل ہو جاتی ہے تو اس میں نہ صرف مالک ہونے کی لیاقت ، سر پرست بننے کی قابلیت اور شہادت دینے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے بلکہ وہ اس قوت حکمیہ یا یہ کہیے کہ اس آزادی کی وجہ سے دوسروں پر تصرف کرنے اور دوسروں کے تصرف کو اپنے سے روکنے پر قادر ہو جاتا ہے اور وہ آزاد و خود مختار انسانوں کی صف میں آ کھڑا ہوتا ہے ۔
آزاد کرنے کی شرط
کسی بردہ ( غلام باندی ) کو آزاد کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ آزاد کرنے والا خود مختار ہو بالغ ہو ، عقلمند ہو اور جس بردہ کو آزاد کر رہا ہے اس کا مالک ہو
آزاد کرنے کی قسمیں
غلام کو آزاد کرنا بعض صورتوں میں واجب ہے جیسے کفارہ ، بعض صورتوں میں مستحب ہے اور بعض صورتوں میں گناہ بھی ہے ، جیسے اگر یہ ظن غالب ہو کہ اگر اس غلام کو آزاد کر دیا جائے گا تو یہ دارالحرب بھاگ جائے گا یا مرتد ہو جائے گا یا یہ خوف ہو کہ چوری قزاقی کرنے لگے گا ! بعض صورتوں میں مباح ہے ۔ جیسے کسی شخص کی خاطر یا کسی شخص کو ثواب پہنچانے کے لئے بردہ کو آزاد کر دیا جائے اور بعض صورتوں میں عبادت ہے جیسے کسی بردہ کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لئے آزاد کیا جائے ۔