مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان ۔ حدیث 566

کس بچہ کی پرورش کا سب سے زیادہ حق اس کی ماں کو ہے۔

راوی:

وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عبد الله بن عمرو : أن امرأة قالت : يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وثديي له سقاء وحجري له حواء وإن أباه طلقني وأراد أن ينزعه مني فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أنت أحق به ما لم تنكحي " . رواه أحمد وأبو داود

حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد مکرم (حضرت شعیب) اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا یہ بیٹا ایک مدت تک میرا پیٹ اس کا برتن رہا میری چھاتی اس کی مشک رہی یعنی مدتوں میری چھاتی سے دودھ پیتا رہا اور میری گود اس کا گہوارہ رہی یعنی مدتوں میں نے اس کو اپنی گود میں پالا ہے اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دیدی ہے اور میرے بیٹے کو بھی مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک تم کسی سے نکاح نہ کرو اس بچہ کی پرورش کرنے کی تم سب سے زیادہ مستحق ہو۔ (احمد، ابوداؤد)

تشریح :
اس حدیث کے بعد جو حدیث آرہی ہے اس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کو اختیار دے دیا تھا کہ وہ چاہے تو اپنی تو ماں کے پاس رہے اور چاہے تو اپنے باپ کے ہاں رہے اس طرح دونوں حدیثوں کے مفہوم میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے چنانچہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جس لڑکے کا ذکر ہے ہو سکتا ہے کہ وہ کم سن رہا ہو اور سن تمیز کو نہ پہنچا ہو اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق ماں کو دیا جب کہ آگے آنے والی حدیث میں جس لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے وہ سن تمیز کو پہنچ چکا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یہ حق دے دیا کہ وہ اپنے اختیار تمیزی کی بنا پر ماں باپ میں سے جس کو چاہے پسند کرے اور اس کے پاس چلا جائے
" جب تک کہ تم کسی سے نکاح نہ کرو " اس بارے میں یہ حدیث مطلق ہے لیکن علماء نے اس مسئلہ کو " غیر محرم " کے ساتھ مقید کیا ہے یعنی اگر مطلقہ ماں وغیرہ کسی ایسے شخص کے ساتھ شادی کر لے جو لڑکے کا غیر محرم ہے تو اس کو اس لڑکے کی پرورش کا حق نہیں رہتا ۔ اور اگر کسی ایسے شخص سے شادی کرے جو لڑکے کا محرم ہے جیسے اس کے چچا سے نکاح ، تو اس صورت میں اس کو پرورش کا حق رہتا ہے کیونکہ وہ محرم لڑکے کے حق میں یقینا شفیق و مہربان ثابت ہوگا ۔

یہ حدیث شیئر کریں