حضرت حمزہ کی صاحبزادی کی پرورش کا تنازعہ اور اس کا تصفیہ
راوی:
وعن البراء بن عازب قال : صالح النبي صلى الله عليه و سلم يوم الحديبية على ثلاثة أشياء : على أن من أتاه من المشركين رده إليهم ومن أتاهم من المسلمين لم يردوه وعلى أن يدخلها من قابل ويقيم بها ثلاثة أيام فلما دخلها ومضى الأجل خرج فتبعته ابنة حمزة تنادي : يا عم يا عم فتناولها علي فأخذ بيدها فاختصم فيها علي وزيد وجعفر قال علي : أنا أخذتها وهي بنت عمي . وقال جعفر : بنت عمي وخالتها تحتي وقال زيد : بنت أخي فقضى بها النبي صلى الله عليه و سلم لخالتها وقال : " الخالة بمنزلة الأم " . وقال لعلي : " أنت مني وأنا منك " وقال لجعفر : " أشبهت خلقي وخلقي " . وقال لزيد : " أنت أخونا ومولانا "
اور حضرت براء ابن عازب کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے دن کفار مکہ سے تین باتوں پر صلح کی تھی ایک تو یہ کہ مشرکوں میں جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس فرما دیں گے دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال مدینہ سے مکہ تشریف لائیں اور اپنا عمرہ قضا کریں اور ارکان عمرہ کی ادائیگی اور استراحت کے لئے) مکہ میں صرف تین دن قیام فرمائیں چنانچہ آئندہ سال جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے اور متعینہ مدت پوری ہوگئی ( یعنی تین دن گزر گئے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت حمزہ کی بیٹی اے میرے چچا اے میرے چچا کہتی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگ گئی، حضرت علی نے اس کو پکڑنے یعنی اپنے ہمراہ لینے کا ارادہ کیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا یعنی اپنے ہمراہ لے لیا اس کے بعد حضرت حمزہ کی اس بیٹی کی پرورش کے بارے میں حضرت علی حضرت زید اور حضرت جعفر کے درمیان تنازعہ پیدا ہو گیا حضرت علی تو یہ کہتے تھے کہ پہلے میں نے اس بچی کو لیا ہے اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اس لئے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق مجھ کو ہے ) اور حضرت جعفر یہ کہتے تھے کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے اس لئے اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حق مجھ کو ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح کیا کہ اس کو اس کی خالہ کے سپرد کر دیا جو جعفر کے نکاح میں تھیں) اور فرمایا کہ خالہ ماں کے برابر ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو یعنی ہم دونوں میں کمال اخلاص و یگانگت ہے اور حضرت جعفر سے فرمایا کہ تم میری پیدائش اور میرے خلق میں مشابہ ہو اور حضرت زید سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی اور ہمارے محبوب ہو ( بخاری ومسلم)
تشریح :
حدیبیہ مکہ سے تقریبا پندرہ میل کے فاصلہ پر بجانب جدہ ایک جگہ کا نام ہے ٦ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی معیت میں عمرہ کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ کو روانہ ہوئے جب حدیبیہ پہنچے تو کفار مکہ نے وہیں سے روک دیا اور مکہ نہ آنے دیا اور پھر اس مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت صلح ہوئی جس کی تین بنیادی دفعات کا ذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے یہ صلح حدیبیہ بڑا مشہور واقعہ ہے اور اس کا تفصیلی بیان ان شاء اللہ کتاب الجہاد میں آئے گا۔
حضرت حمزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور دودھ شریک بھائی تھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت حمزہ نے ابولہب کی لونڈی ثوبیہ کا دودھ پیا تھا اسی رشتہ رضاعت کی بناء پر حضرت حمزہ کی بیٹی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چچا کہا۔
حضرت جعفر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی یعنی ابوطالب کے لڑکے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی تھے اور عمر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دس سال بڑے تھے۔
حضرت زید بن ثابت ایک غلام تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کیا تھا اور اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا) بنایا تھا ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبت تھی چونکہ آپ نے دوسرے صحابہ کی مانند حضرت حمزہ اور حضرت زید کے درمیان بھائی چارہ کا تعلق قائم کر دیا تھا اس لئے حضرت زید نے حضرت حمزہ کی بیٹی کو بھتیجی کہا۔
حضرت علی جب حضرت حمزہ کی بیٹی کو مدینہ لے آئے تو اس کی پرورش کے بارے میں مذکورہ بالا تینوں حضرات کے درمیان تنازعہ ہوا ان میں سے ہر ایک یہ دعوی کرتا تھا کہ اس بچی کی پرورش کرنا سب سے زیادہ میرا حق ہے اور ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ یہ میری تربیت وکفالت میں رہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تنازعہ کا فیصلہ اس طرح فرمایا کہ اس بچی کو اس کی خالہ کی پرورش میں دیدیا جو حضرت جعفر کے نکاح میں تھیں اور ان تینوں حضرات کی تسلی اور ان کا دل خوش کرنے کے لئے مذکورہ کلمات ارشاد فرمائے تاکہ وہ آزردہ نہ ہوں۔