مال یتیم کے بارے حکم خداوندی
راوی:
عن ابن عباس قال : لما نزل قوله تعالى ( ولا تقربوا مال اليتيم إلا بالتي هي أحسن )
وقوله تعالى : ( إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما )
الآية انطلق من كان عنده يتيم فعزل طعامه من طعامه وشرابه من شرابه فإذا فضل من طعام اليتيم وشرابه شيء حبس له حتى يأكله أو يفسد فاشتد ذلك عليهم فذكروا ذلك لرسول الله صلى الله عليه و سلم فأنزل الله تعالى : ( ويسألونك عن اليتامى قل : إصلاح لهم خير وإن تخالطوهم فإخوانكم )
فخلطوا طعامهم بطعامهم وشرابهم بشرابهم . رواه أبو داود والنسائي
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نازل ہوا یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر اس عادت کے ساتھ جو نیکی پر مبنی ہے یعنی امانت ودیانت کے ساتھ) اور بلاشبہ جو لوگ یتیموں کا مال ازراہ ظلم بلا استحقاق کھاتے برتتے ہیں تو جن لوگوں کے پاس یعنی جن کی نگرانی وپرورش میں یتیم تھے انہوں نے سخت احتیاط برتنی شروع کی اور ان کے کھانے کے سامان کو اپنے کھانے کے سامان سے اور ان کے پینے کی چیزوں کو اپنے پینے کی چیزوں سے الگ کر دیا یہاں تک کہ ان یتیموں کے کھانے پینے کی چیزوں میں سے جو کچھ بچ رہتا اس کو اٹھا کر رکھ دیا جاتا جس کو وہ یتیم یا دوسرے وقت کھا پی لیتا یا وہ خراب ہو جاتا تھا ۔ یہ بات ان نگرانوں کو بڑی شاق گزری چنانچہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم) سے یتیمی بچوں کا حکم پوچھتے ہیں فرما دیجئے کہ ان کی مصلحت کی رعایت رکھنا زیادہ بہتر ہے اور اگر تم ان کے ساتھ خرچ شامل رکھو تو وہ بچے تمہارے دینی بھائی ہیں چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان نگرانوں نے یتیموں کے کھانے پینے کو اپنے کھانے میں ملا لیا ( ابوداؤد نسائی)
تشریح :
حدیث میں مذکورہ دوسری آیت پوری یوں ہے
(اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا ) 4۔ النساء : 10)
بلاشبہ جو لوگ یتیموں کا مال ازراہ ظلم یعنی بلا استحقاق کھاتے (برتتے) ہیں وہ دراصل اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب جلتی آگ میں داخل ہوں گے۔
آخری آیت یوں ہے
(فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَيَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَا ءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ ) 2۔ البقرۃ : 220)
اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یتیم بچوں کے (مال کو علیحدہ یا شامل رکھنے) کا حکم پوچھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرما دیجئے کہ ان کی مصلحت کی رعایت رکھنا زیادہ بہتر ہے اور اگر تم ان کے ساتھ خرچ شامل رکھو تو وہ بچے تمہارے دینی بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ مصلحت کے ضائع کرنے والے اور مصلحت کی رعایت رکھنے والے کو الگ الگ جانتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو سخت قانون مقرر کر کے تم کو مصیب میں ڈال دیتے۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ یتیموں کے مال کے بارے میں جب قرآن کریم کی مذکورہ ہدایت کے مطابق یتیموں کے نگران اور مربیوں نے سخت احتیاط برتنی شروع کی اور یتیموں کے مال کو اپنے مال واسباب سے علیحدہ کر دینے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ذمہ داریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا بلکہ یتیموں کے مال کا نقصان بھی ہونے لگا تو ان مربیوں کی عرض پر اللہ تعالیٰ نے یہاں اجازت عطا فرمائی کہ یتیموں کے نگران ان یتیموں کے مال واسباب کو اپنے مال واسباب میں ملا سکتے ہیں اور آیت (وا اللہ یعلم المفسد) الخ کے ذریعہ اس طرف ارشاد فرمایا کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ مخلوط تو کر لو لیکن ان کے خیرخواہ اور ہمدرد بہرصورت رہو اپنی نیتوں کو خراب نہ کرو اور ان کے مال کو فریب ودغا کے ذریعہ نقصان نہ پہچاؤ ! کیونکہ اللہ تعالیٰ مصلحت کی رعایت رکھنے والوں اور نہ رکھنے والوں کو خوب جانتا ہے اگر کسی نگران نے بدنیتی بدخواہی اور بددیانتی کے ساتھ یتیم کے مال پر تصرف کیا تو اس کو سخت سزا دی جائے گی۔
منقول ہے کہ حضرت امام محمد کے ایک شاگرد کا انتقال ہو گیا تو انہوں نے اس کی کتابیں فروخت کر کے اس کی تجہیز وتکفین کا انتظام کیا لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ کے اس شاگرد نے اس کی وصیت تو کی نہیں تھی آپ نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت امام محمد نے اس کے جواب میں یہی آیت (وَاللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ) 2۔ البقرۃ : 220) پڑھی۔