مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان ۔ حدیث 553

کمسن بردہ کو اس کی ماں وغیرہ سے الگ نہ کرو

راوی:

وعن أبي أيوب قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من فرق بين والدة وولدها فرق الله بينه وبين أحبته يوم القيامة " . رواه الترمذي والدارمي
(2/264)

3362 – [ 21 ] ( ضعيف )
وعن علي رضي الله عنه قال : وهب لي رسول الله صلى الله عليه و سلم غلامين أخوين فبعث أحدهما فقال لي رسول صلى الله عليه و سلم : " يا علي ما فعل غلامك ؟ " فأخبرته . فقال : " رده رده " . رواه الترمذي وابن ماجه
(2/264)

3363 – [ 22 ] ( لم تتم دراسته )
وعنه أنه فرق بين جارية وولدها فنهاه النبي صلى الله عليه و سلم عن ذلك فرد البيع . رواه أبو داود منقطعا

اور حضرت ابوایوب کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص ماں اور بیٹے کے درمیان جدائی کرائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے عزیزوں کے درمیان جدائی کرائے گا ( ترمذی دارمی)

تشریح :
ماں اور بیٹے سے مراد لونڈی اور اس کا بچہ ہے اسی طرح جدائی کرانے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مالک مثلا لونڈی کو تو کسی کے ہاتھ فروخت کر دے یا کسی کو ہبہ کر دے اور بچہ کو اپنے پاس روک لے یا بچہ کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دے یا کسی کو ہبہ کر دے اور اس کی ماں کو اپنے پاس رہنے دے لہذا اگر کوئی شخص اسی طرح سے ماں اور بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کرے گا تو قیامت کے دن اس موقف میں کہ جہاں تمام مخلوق اپنے تمام عزیزوں کے ساتھ جمع ہو گی اور لوگ اپنے پروردگار سے ایک دوسرے کی شفاعت کر رہے ہوں گے اللہ تعالیٰ اس شخص اور اس کے عزیزوں میں مثلا ماں باپ یا اولاد وغیرہ کے درمیان جدائی کرا دے گا۔
علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں صرف ماں بیٹے کا ذکر محض اتفاقی ہے ورنہ تو ہر چھوٹے کمسن بردہ اور اس کے ذی رحم محرم رشتہ دار خوا وہ ماں ہو باپ دادا ہو یا دادی اور بھائی ہو یا بہن کے درمیان جدائی کرانے کا یہی حکم ہے حنفیہ کے ہاں دو چھوٹے بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دینا جائز ہے۔
مذکورہ بالا ضاحت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ چھوٹے کی قید سے بڑے کا استثناء ہو گیا یعنی اگر بڑے عمر والے بردہ کو اس کی ماں یا اس کے باپ یا کسی اور ذی رحم محرم رشتہ دار سے جدا کر دیا جائے تو جائز ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے کی تعریف کیا ہے تو اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ کس عمر کے بردہ کو بڑا کہیں گے چنانچہ حضرت امام شافعی کے نزدیک تو سات برس یا آٹھ برس کی عمر والا بڑا کہلائے گا جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ جو بالغ ہو جائے وہ بڑا کہلائے گا نیز حضرت امام اعظم اور حضرت امام محمد کے نزدیک چھوٹے بچے اور اس کے ذی رحم محرم رشتہ دار کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے بیچنا مکروہ ہے جبکہ حضرت امام ابویوسف یہ فرماتے ہیں کہ اگر ان دونوں یعنی بچہ اور اس کے ذی رحم محرم رشتہ دار میں ولادتی قرابت ہو جیسے وہ دونوں ماں اور بیٹا ہوں یا باپ اور بیٹا ہوں تو اس صورت میں ان دونوں کو جدا کر کے بیچنا سرے سے جائز ہی نہیں ہوگا اور ان کا قول یہ بھی ہے کہ ولادت کی قرابت کے استثناء کے بغیر تمام ذی رحم محرم رشتہ داروں کے بارے میں یہی حکم ہے۔
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو غلام عطا فرمائے جو آپس میں بھائی بھائی تھے پھر جب میں نے ان میں سے ایک کو بچ دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ علی تمہارا ایک غلام کہاں گیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا کہ ایک غلام میں نے بیچ دیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو واپس کر لو اس کو واپس کر لو (ترمذی ابن ماجہ)

تشریح :
اس کو واپس کر لو کا مطلب یہ تھا کہ تم نے جو بیع کی ہے اس کو فسخ کر دو اور اس غلام کو اپنے پاس لے آؤ! تاکہ دونوں بھائیوں کے درمیان جدائی واقع نہ ہو اس جملہ کو تاکیدا دو مرتبہ فرمانے میں اس طرف اشارہ تھا کہ جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طور پر ہے اور بیع مکروہ تحریمی ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کے درمیان جدائی نہ کرانے کا حکم صرف ماں بیٹیوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے ایک لونڈی اور اس کے بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا یعنی ان دونوں میں ایک کو بیچ دیا اور ایک کو اپنے پاس رہنے دیا) چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور انہوں نے یعنی حضرت علی نے اس بیع کو فسخ کر دیا (ابوداؤد نے اس روایت کو بطریق انقطاع نقل کیا ہے)

تشریح :
مذکورہ بالا دونوں حدیثیں حضرت امام ابویوسف کے اس مسلک کی دلیل ہیں کہ چھوٹے بردے اور اس کی ماں یا اس کے باپ کو ایک دوسرے سے الگ کر کے بیچنا ناجائز ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں