مربی کے حق میں یتیم کے مال کا حکم
راوی:
وعنه وعن أبيه عن جده : أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال : إني فقير ليس لي شيء ولي يتيم فقال : " كل من مال يتيمك غير مسرف ولا مبادر ولا متأثل " . رواه أبو داود والنسائي وابن ماجه
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں ایک مفلس آدمی ہوں میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور میری نگہداشت میں ایک یتیم ہے تو کیا میں اس کے مال میں سے کچھ کھا لوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری نگرانی میں جو یتیم ہے تم اس کے مال میں سے کھا سکتے ہو بشرطیکہ اسراف فضول خرچی نہ کرو خرچ کرنے میں عجلت نہ کرو اور نہ اپنے لئے جمع کرو۔
تشریح :
یتیم بچہ کے مال میں سے یتیم کے مربی کو اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں سے مشروط کیا پہلی شرط تو یہ کہ اس کے مال میں سے صرف اتنا لیا جائے جو اصل ضروریات زندگی کے بقدر ہو اسراف اور اپنی ضرورت حاجت سے زیادہ خرچ کر کے اس یتیم کے مال کو ضائع نہ کیا جائے دوسری شرط یہ کہ اس کے مال میں سے جو کچھ بھی لیا جائے ضرورت کے وقت لیا جائے چنانچہ اس خوف سے کہ اگر یتیم بچہ بالغ ہو گیا تو اپنا تمام مال اپنے قبضہ میں لے لے گا ضرورت سے پہلے ہرگز نہ لیا جائے اور تیسری شرط یہ کہ اپنی ضرورت وحاجت کے نام پر اس کے مال میں سے نکال نکال کر اپنے لئے جمع نہ کیا جائے۔
بہرحال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ یتیم کے مربی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اگر محتاج ومفلس ہو تو اس یتیم کے مال میں سے اپنی ضرورت وحاجت کے بقدر اپنے اوپر خرچ کرے لیکن جو مربی خود خوشحال ہو اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے چنانچہ یہ مسئلہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔