غلام کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم
راوی:
وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن جعل الله أخاه تحت يديه فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا يكلفه من العمل ما يغلبه فإن كلفه ما يغلبه فليعنه عليه "
اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلام تمہارے بھائی ہیں اور دین وخلقت کے اعتبار سے تمہاری ہی طرح ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری آزمائش کے لئے ما تحت بنایا ہے لہذا اللہ تعالیٰ جس شخص کے بھائی کو اس کا ماتحت بنائے یعنی جو شخص کسی غلام کا مالک بنے تو اس کو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے وہی اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو بھی پہنائے نیز اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور اگر کوئی ایسا کام اس سے لئے جائے جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس کام میں خود بھی اس کی مدد کرے ( بخاری ومسلم)
تشریح :
امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ذریعہ مالک کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے غلام کو ہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اس کو وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے وجوب کے طور پر نہیں بلکہ بطریق استحباب ہے چنانچہ مالک اس کے مملوک کا اسی حیثیت و مقدار کا نفقہ واجب ہے جو عرف عام اور رواج ودستور کے مطابق ہو خواہ وہ مالک کے کھانے کپڑے کے برابر ہو یا اس سے کم و زیادہ ہو یہاں تکہ کہ اگر مالک خواہ اپنے زہد و تقوی کی بناء پر یا ازارہ بخل اپنے کھانے پینے اور پہننے میں اس طرح کی تنگی کرتا ہو جو اس حیثیت کے لوگوں کے معیار کے منافی ہے تو ایسی تنگی مملوک کے حق میں جائز نہیں ہے۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو کام غلام کے لئے مشکل نظر آئے اور وہ اس کو پورا کرنے میں دقت محسوس کرے تو اس کام کی تکمیل میں غلام کی مدد کرو خواہ خود اس کا ہاتھ بٹاؤ یا کسی دوسرے شخص کو اس کی مدد کرنے پر متعین کرو چنانچہ بعض بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ وہ چکی پیسنے میں اپنی لونڈیوں کی مدد کرتے تھے بایں طور کہ ان لونڈیوں کے ساتھ مل کر چکی پیستے تھے۔