مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ عدت کا بیان ۔ حدیث 524

عدت کے دنوں میں سرمہ لگانے کی ممانعت

راوی:

وعن أم سلمة قالت : جاءت امرأة إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقالت : يا رسول الله إن ابنتي توفي عنها زوجها وقد اشتكت عينها أفنكحلها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا " مرتين أو ثلاثا كل ذلك يقول : " لا " قال : " إنما هي أربعة أشهر وعشر وقد كانت إحداهن في الجاهلية ترمي بالبعرة على رأس الحول "

اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری لڑکی کا خاوند مر گیا ہے جس کی وجہ سے وہ عدت میں ہے اور اس کی آنکھیں دکھتی ہیں تو کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا دوں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس عورت نے یہ دو بار یا تین بار پوچھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر بار یہی جواب دیتے تھے کہ نہیں پھر فرمایا کہ عدت چار مہینہ اور دس دن ہے جب کہ ایام جاہلیت میں تم میں کی ایک عورت یعنی بیوہ سال بھر کے بعد مینگنیاں پھینکتی تھی (بخاری ومسلم)

تشریح :
یہ حدیث بظاہر امام احمد کی دلیل ہے کہ کیونکہ ان کے نزدیک اس عورت کو سرمہ لگانا جائز نہیں ہے جس کا خاوند مر گیا ہو اور وہ عدت میں بیٹھی ہو خواہ آنکھیں دکھنے کی وجہ سے اس کو سرمہ لگانے کی ضرورت ہو اور خواہ وہ محض زینت یا عادت کی بناء پر لگانا چاہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کے نزدیک مجبوری کی حالت میں مثلا آنکھ دکھنے کی صورت میں سرمہ لگانا جائز ہے اور حضرت امام شافعی بھی آنکھیں دکھنے کی صورت میں سرمہ لگانے کی اجازت دیتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ رات میں لگائے اور دن میں پونچھ لے۔
اس حدیث کے بارے میں حنفی علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس عورت نے زینت کے لئے سرمہ لگانا چاہا ہو گا مگر بہانہ کیا ہو گا آنکھ دکھنے کا اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہو گا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمہ لگانے کی اجازت دینے سے انکار فرما دیا ۔
حدیث کے آخری جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ جس عورت کا خاوند مر جاتا وہ ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں بیٹھی رہتی اور بہت خراب کپڑے جو اکثر و بیشتر ٹاٹ اور نمدے کی صورت میں ہوتا تھا پہنے رہا کرتی تھی زینت کی کوئی چیز استعمال نہیں کرتی تھی خوشبو بھی نہیں لگاتی تھی غرض کہ پورے ایک سال تک اسی حالت میں رہتی پھر جس دن سال ختم ہوتا اس دن اس کے پاس گدھا یا بکری اور یا کوئی بھی جانور و پرندہ لایا جاتا جس سے وہ اپنی شرمگاہ رگڑتی اور اس کے بعد اس کوٹھڑی سے باہر نکلتی پھر اس کے ہاتھ میں چند مینگنیاں دی جاتیں جن کو وہ پھینکتی اور اس کے ساتھ ہی عدت سے نکل آتی ۔ لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی رسم کی طرف اشارہ فرمایا کہ پچھلے زمانہ میں عدت کی مدت بھی بہت زیادہ تھی اور اس میں خرابیاں اور پریشانیاں بھی بہت تھیں جب کہ اسلام میں عدت کی مدت بھی بہت کم ہے یعنی چار مہینہ دس دن زیادہ تھی اور اس میں خرابی اور پریشانی بھی نہیں ہے تو پھر اتنا اضطراب کیوں ہے؟

یہ حدیث شیئر کریں