عدت کے زمانے میں کسی ضرورت سے گھر سے باہر نکلنا جائز ہے یا نہیں
راوی:
وعن جابر قال : طلقت خالتي ثلاثا فأرادت أن تجد نخلها فزجرها رجل أن تخرج فأتت النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " بلى فجدي نخلك فإنه عسى أن تصدقي أو تفعلي معروفا " . رواه مسلم
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ میری خالہ کو تین طلاقیں دی گئی اور وہ عدت میں بیٹھ گئیں پھر ایک دن انہوں نے ارادہ کیا کہ گھر سے باہر جا کر کھجوریں توڑ لائیں تو ایک شخص نے انہیں گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ واقعہ بیان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے جاؤ اور اپنے درخت سے کھجوریں توڑ لاؤ کیونکہ شاید تم وہ کھجوریں اللہ تعالیٰ کی راہ میں دو یا ان کے ذریعہ احسان کرو ( مسلم)
تشریح :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ کھجوریں اتنی مقدار میں ہو جائیں گی کہ ان پر زکوۃ واجب ہو جائے تم ان کی زکوۃ ادا کرو گی اور اگر بقدر نصاب نہیں ہوں گی تو پھر تم ان کے ذریعے احسان و سلوک کرو گی بایں طور کہ اپنے ہمسایوں اور فقراء کو نقل صدقہ کے طور پر دو گی یا لوگوں کے پاس بطور تحفہ بھیجو گی اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ صدقہ نہ کرتیں تو ان کے لئے گھر سے باہر نکلنا جائز نہ ہوتا۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو عورت طلاق بائن کی عدت میں بیٹھی ہو اس کو اپنی کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنا جائز ہے اس مسلہ میں حنفیہ کا جو مسلک ہے وہ ام عطیہ کی روایت کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے جو آگے آئے گی ۔