مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ لعان کا بیان ۔ حدیث 516

ولد الزنا کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوتا

راوی:

عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : قام رجل فقال : يا رسول الله إن فلانا ابني عاهرت بأمه في الجاهلية فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا دعوة في الإسلام ذهب أمر الجاهلية الولد للفراش وللعاهر الحجر " . رواه أبو داود

حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور حضرت شعیب اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مجلس نبوی میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں میرا لڑکا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ جاہلیت کی گئی گزری بات زمانہ اسلام میں دعوی نہیں ہو سکتا ( یعنی یہ بات زمانہ جاہلیت ہی کے ساتھ مخصوص تھی اور جو بچہ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتا تھا اس کا نسب زانی اپنے ساتھ جوڑ لیتا تھا اب زمانہ اسلام میں یہ بات درست نہیں بچہ صاحب فراش کا ہے اور زانی کے لئے پتھر یعنی محرومی ہے یا سنگساری (ابوداؤد)

تشریح :
صاحب فراش سے وہ شخص مراد ہے جو ولد الزنا کی ماں کا خاوند یا مالک ہو مطلب یہ ہے کہ جو عورت کسی کے نکاح میں ہو یا لونڈی ہونے کی صورت میں کسی کی ملک میں ہو تو اس کے زنا کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہوگا اس کا نسب اس کے خاوند یا مالک سے ثابت ہو گا اور اگر وہ عورت کسی کے نکاح یا کسی کی ملک میں نہ ہو تو پھر بچہ ماں ہی کی طرف منسوب ہو گا بہرصورت زانی کا اس بچہ سے کوئی نسبی تعلق نہیں ہو گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں