مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ لعان کا بیان ۔ حدیث 508

محض معمولی علامتوں کی بناء پر اپنے بچہ کا انکار نہ کرو

راوی:

وعنه أن أعرابيا أتى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : إن امرأتي ولدت غلاما أسود وإني نكرته فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " هل لك من إبل ؟ " قال : نعم قال : " فما ألوانها ؟ " قال : حمر قال : " هل فيها من أورق ؟ " قال : إن فيها لورقا قال : " فأنى ترى ذلك جاءها ؟ " قال : عرق نزعها . قال : " فلعل هذا عرق نزعه " ولم يرخص له في الانتفاء منه

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری بیوی نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جس کا رنگ کالا ہے اور اس وجہ سے کہ وہ میرا ہم رنگ نہیں ہے) میں نے اس کا انکار کر دیا ہے (یعنی یہ کہہ دیا ہے کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں، اس نے عرض کیا کہ ہاں ان میں خاکسری رنگ کے بھی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ خاکستری رنگ کے اونٹ کہاں سے آ گئے ( یعنی ان میں خاکستری رنگ کہاں سے آیا جب کہ ان کے ماں باپ خاکستری رنگ کے نہیں ہیں؟) اس نے عرض کیا کہ کوئی ٰرگ ہو گی جس نے انہیں کھینچ لیا ( یعنی ان کی اصل میں کوئی خاکستری کا رہا ہو گا جس کے مشابہ یہ بھی ہو گئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو پھر یہ بچہ بھی کسی ایسی رگ کے سبب کالا ہوا ہے جس نے اس کو کھینچ لیا ہے یعنی اس بچہ کی اصل میں بھی کوئی شخص کالے رنگ کا رہا ہو گا جس کے مشابہ یہ بچہ ہو گیا ہے اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کو اس بچہ کا انکار کرنے کی اجازت نہیں دی ( بخاری و مسلم)

تشریح :
طیبی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ محض معمولی اور ضعیف علامتوں کی بناء پر اپنے بچہ کا انکار کرنا یعنی یہ کہنا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے ممنوع ہے بلکہ اس صورت میں مضبوط دلائل و وجوہ کا ہونا ضروری ہے مثلا بیوی سے صحبت نہ کی ہو اور اس کے باوجود بچہ کی ولادت ہوئی ہو یا صحبت کی ہو مگر صحبت کے بعد چھ مہینہ سے کم مدت میں بچہ پیدا ہوا ہو اور ان صورتوں میں اس بچہ کا انکار کر دینا جائز ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں