زنا کی تہمت چار گواہوں کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے
راوی:
وعن أبي هريرة قال : قال سعد بن عبادة : لو وجدت مع أهلي رجلا لم أمسه حتى آتي بأربعة شهداء ؟ قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نعم " قال : ٍ بالحق إن كنت لأعاجله بالسيف قبل ذلك قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اسمعوا إلى ما يقول سيدكم إنه لغيور وأنا أغير منه والله أغير مني " . رواه مسلم
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک صحابی سعد نے کہا کہ اگر میں کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے پاس پاؤں تو جب تک کہ چار گواہ فراہم نہ کر لوں اس کو ہاتھ نہ لگاؤں ۔ یعنی نہ اس کو ماروں اور نہ قتل کروں) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں سعد نے کہا کہ ہرگز نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں قبل اس کے کہ چار گواہ فراہم کروں فوری طور پر تلوار سے اس کا خاتمہ کر دوں گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سنو تمہارا سردار یعنی سعد کیا کہہ رہا ہے بلاشبہ وہ غیرت مند ہے میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے (مسلم)
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب سن کر حضرت سعد نے جو کچھ کہا اس سے نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی تردید مقصود تھی اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت منظور تھی بلکہ انہوں نے اپنی اس بات کے ذریعہ دراصل اپنی طبیعت اور اپنے مزاج کے بارے میں بتایا ۔ کہ میرا حال تو یہ ہے کہ میرے غصہ اور میری غیرت کا یہ عالم ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے پاس کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو اس کو فورًا قتل کر دوں جب کہ اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب تک چار گواہ فراہم نہ کر لو اس کو کچھ نہ کہو تو اس صورت میں میرے لئے کونسا راستہ ہے؟ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کی یہ بات سن کر لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کیا کہ سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کہ سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے ؟ کی مراد حضرت سعد کے وصف کی تعریف کرنا ہے اور اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ طبیعت و مزاج میں اتنی غیرت کا ہونا بزرگوں کی صفات اور سرداروں کی عادات میں سے ہے اگرچہ اس معاملہ میں شریعت کا حکم دوسرا ہے جس پر عمل کرنا غیرت مندی کے تقاضا پر عمل کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔
حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ حضرت سعد کی بات کی تقریر یعنی تائید و توثیق نہیں فرمائی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر بیان کیا کہ حضرت سعد نے جو بات کہی ہے اور جس سے بظاہر میرے حکم کی خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے وہ دراصل ان کی غیر معمولی غیرت مندی کی وجہ سے سے ان کی زبان سے نکل گئی ہے۔
حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ حضرت سعد کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مذکورہ جواب دینا آنحضرت کے حکم کی مخالفت یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو قبول کرنے سے انکار کر دینے کے طور پر نہیں تھا بلکہ درحقیقت ان کی اس خواہش کے اظہار کے طور پر تھا کہ اگر کوئی غیرت مند کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے پاس پائے تو اس کو قتل کر دینے کی اجازت عطا ہو جائے چنانچہ جب آنحضرت نے یہ اجازت دینے سے ایک بلیغ انداز میں انکار کر دیا تو انہوں نے سکوت اختیار کر لیا ۔
غیرت آدمی کی اندرونی کیفیت و حالت کے اس تغیر کو کہتے ہیں جو اپنے اہل میں کسی ناگوار چیز کو دیکھنے پر پیدا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کی نسبت اسی معنی کے اعتبار سے محال و ناممکن ہے لہذا اللہ تعالیٰ کے غیرت مند ہونے کی معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے بندوں کو گناہوں سے روکنے والا ہے تا کہ وہ اس کی بارگاہ کی قربت و مقبولیت سے دور نہ جا پڑیں۔