مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ لعان کا بیان ۔ حدیث 502

لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق کا مسئلہ

راوی:

وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه و سلم لاعن بين رجل وامرأته فانتقى من ولدها ففرق بينهما وألحق الولد بالمرأة . متفق عليه . وفي حديثه لهما أن رسول الله صلى الله عليه و سلم وعظه وذكره وأخبره أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة ثم دعاها فوعظها وذكرها وأخبرها أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص اور اس کی بیوی کے مابین لعان کا حکم فرمایا چنانچہ اس لعان کی وجہ سے وہ شخص اس عورت کے بچہ سے دور ہو گیا یعنی بچہ کا نسب اس شخص سے ہٹا دیا گیا نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دی اور بچہ کو عورت کے حوالے کر دیا (بخاری مسلم) اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں جو بخاری ومسلم ہی نے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا (تاکہ وہ جھوٹ نہ بولے اور عورت اپنے الزام کو ناحق ثابت نہ کرے) اور اس کو اس بات سے آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بلایا اس کو بھی نصیحت کی اور آخرت کا عذاب یاد دلایا اور آگاہ کیا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے سہل ہے۔

تشریح :
تفریق کرا دی کا مطلب یہ ہے کہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان تفریق جدائی حاکم وقاضی کے حکم ہی سے ہوتی ہے نہ کہ محض لعان سے چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے نیز ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر نفس لعان ہی سے تفریق واقع ہو جاتی تو پھر تین طلاقیں کیوں دی جاتیں جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے کہ حضرت عویمر نے لعان کے بعد اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔
دنیا کے عذاب سے مراد حد یعنی شرعی سزا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر مرد کسی عورت کو چاہے وہ اس کی بیوی ہی کیوں نہ ہو) زنا کی تہمت لگائے اور اس کی تہمت جھوٹی ثابت ہو جائے تو شرعی قانون کے مطابق اس پر حد جاری کی جائیگی یعنی اس کو ایک پاکدامن عورت پر زنا کی جھوٹ تہمت لگانے کے جرم میں اسی کوڑے مارے جائیں گے اور اگر وہ مرد سچا ثابت ہو جائے یعنی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ اس عورت نے بدکاری کرائی ہے تو پھر اس عورت پر حد جاری ہو گی کہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس کو سنگسار کر دیا جائے گا اور غیرشادی شدہ ہونے کی صورت میں سو کوڑے مارے جائیں گے اس صورت میں یہ امکان ہو سکتا ہے کہ مرد نے کسی غلط فہمی کی بناء پر یا کسی خاص جذبہ کے تحت عورت کو تہمت لگا دی ہو اور پھر اسے یہ یقین ہو گیا ہو کہ میں نے عورت پر جو الزام لگایا ہے وہ بے بنیاد ہے مگر اب اس خوف سے کہ ایک پاکدامن عورت پر جھوٹی تہمت لگائی تھی یا یہ کہ واقعۃ عورت نے بدکاری کرائی ہو مگر اس خوف سے کہ میں سنگسار کر دی جاؤں گی یا سو کوڑے ماری جاؤں گی اپنے اس گناہ کا اعتراف واقرار نہیں کرتی بلکہ ملاعنت پر تیار ہو جاتی ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امکانی صورت کے خلاف دونوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں دنیا کا عذاب یعنی یہاں کی سزا کہیں آسان اور سہل ہے اس لئے جو صورت حال ہو اور جو سچ بات ہو اس کا اعتراف واقرار کر لو اور اس دنیا کے آسان عذاب کو اختیار کر کے آخرت کے سخت ترین عذاب سے بچو۔

یہ حدیث شیئر کریں