ظہار کا حکم
راوی:
وعن أبي سلمة : أن سلمان بن صخر ويقال له : سلمة بن صخر البياضي جعل امرأته عليه كظهر أمه حتى يمضي رمضان فلما مضى نصف من رمضان وقع عليها ليلا فأتى رسول الله صلى الله عليه و سلم فذكر له فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أعتق رقبة " قال : لا أجدها قال : " فصم شهرين متتابعين " قال : لا أستطيع قال : " اطعم ستين مسكينا " قال : لا أجد فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لفروة بن عمرو : " أعطه ذلك العرق " وهو مكتل يأخذ خمسة عشر صاعا أو ستة عشر صاعا " ليطعم ستين مسكينا " . رواه الترمذي
اور حضرت ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ایک صحابی سلمان ابن صخر نے کہ جن کو سلمہ ابن صخر بیاضی کہا جاتا تھا اپنی بیوی کو اپنے لئے اپنی ماں کی پشت کی مانند قرار دیا تاوقتیکہ رمضان ختم ہو (یعنی انہوں نے بیوی سے یوں کہا کہ ختم رمضان تک کے لئے تو مجھ پر میری ماں کی پشت کے مثل ہے گویا اس طرح انہوں نے اپنی بیوی کو رمضان کے ختم تک کے لئے اپنے اوپر حرام قرار دیا ) مگر ابھی آدھا ہی رمضان گزرا تھا کہ انہوں نے اسی رات اپنی بیوی سے صحبت کر لی پھر جب صبح ہوئی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ ماجرا بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک غلام آزاد کرو انہوں نے عرض کیا کہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا دو مہینے یعنی پے درپے روزے رکھو انہوں نے عرض کیا کہ مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے کیونکہ حکم الٰہی تو یہ ہے کہ دو مہینے مسلسل اس طرح روزے رکھے جائیں کہ ان مہینوں میں جماع سے کلیۃ اجتناب کیا جائے اور میں اپنے جنسی ہیجان کی وجہ سے اتنے دنوں تک جماع سے باز نہیں رہ سکتا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ! انہوں نے عرض کیا میں اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور صحابی حضرت فروہ ابن عمرو سے فرمایا کہ ان کو کھجوروں کا فرق دیدو فرق کھجور کے درخت کے پتوں سے بنے ہوئے تھیلے چھابے) کو کہتے ہیں جس میں پندرہ صاع یا سولہ صاع (یعنی تقریبا ساڑھے باون سیریا چھپن سیر) کھجور سماتی ہیں ( ترمذی ابوداؤد) اور دارمی نے اس روایت کو سلیمان ابن یسار سے اور انہوں نے حضرت سلمہ ابن صخر سے اسی طرح نقل کیا ہے جس میں حضرت سلمہ کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں اپنی عورتوں سے اس قدر قربت کیا کرتا تھا کہ کوئی اور شخص میری برابر قربت نہیں کرتا تھا چنانچہ جنسی ہیجان کے اتنے زیادہ غلبہ ہی کی وجہ سے میں اپنی بیوی سے صحبت کرنے سے نہ رک سکا) اور ان دونوں میں یعنی ابوداؤد اور دارمی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ فرمانے کی جگہ یہ فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھجوریں کھلاؤ۔
تشریح :
اس حدیث میں ظہار کا حکم بیان کیا گیا ہے ظہار اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو اس اس کے جسم کے کسی ایسے حصے کو کہ اس کو بول کر پورا بدن مراد لیا جاتا ہو اور یا اس کے جسم کے کسی ایسے حصہ کو جو شائع غیر متعین ہو محرمات ابدیہ یعنی ماں بہن اور پھوپھی وغیرہ) کے جسم کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دے جس کی طرف نظر کرنا حلال نہ ہو جیسے وہ اپنی بیوی سے یوں کہے کہ تم مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہو یا تمہارا سر یا تمہارے بدن کا نصف حصہ میری ماں کی پیٹھ یا پیٹ کے مانند ہے یا میری ماں کی ران کے مانند ہے یا میری بہن یا میری پھوپھی کی پیٹھ کے مانند ہے اس طرح کہنے سے اس بیوی سے جماع کرنا یا ایسا کوئی بھی فعل کرنا جو جماع کا سبب بنتا ہے جیسے مساس کرنا یا بوسہ لینا اس وقت تک کے لئے حرام ہو جاتا ہے جب تک کہ کفارہ ظہار ادا نہ کر دیا جائے اور اگر کسی شخص نے کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر لیا تو اس پر پہلے کفارہ کے علاوہ کچھ اور واجب نہیں ہو گا ہاں اسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور پھر جب تک کفارہ ادا نہ کرے دوبارہ جماع نہ کرے۔
یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ کہ ظہار صرف بیوی سے ہوتا ہے اور بیوی خواہ آزاد عورت ہو اور خواہ کسی کی لونڈی ہو اسی طرح خواہ وہ مسلمان ہو یا کتابیہ یعنی عیسائی ویہودی ہو ظہار کے باقی مسائل فقہ کی کتابوں میں دیکھنے چاہئیں۔
علامہ طیب فرماتے ہیں کہ حدیث الفاظ (حتی یمضی رمضان) (جب تک کہ رمضان ختم ہو) کہ ظاہر موقت صحیح ہو جاتا ہے اور قاضی خان نے کہا ہے کہ جب کوئی شخص موقت یعنی کسی متعین مدت وعرصہ کے لئے ظہار کرتا ہے تو وہ اسی وقت ظہار کرنیوالا ہو جاتا ہے اور جب وہ متعینہ عرصہ گزر جاتا ہے تو ظہار باطل ہو جاتا ہے ۔
محقق علام حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ظہار کرے اور مثلا جمعہ کے دن استثناء کر دے تو صحیح نہیں ہوتا اور اگر ایک دن یا ایک مہینہ کے لئے ظہار کر دے (یعنی کسی مدت متعین کے لئے ظہار کرے ) تو اس مدت کی قید لگانی صحیح ہے اور پھر اس مدت کے گزرے جانے کے بعد ظہار باقی نہیں رہتا۔
حدیث (اطعم ستین مسکینا) یعنی ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ سے دونوں باتیں مراد تھیں کہ یا تو تم ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلا دو یا ان میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار کے برابر کچا اناج یا اس کی قیمت دیدو اور جس طرح کفارہ ادا کرنے کے لئے غلام آزاد کرنے کی صورت میں جماع سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے یا کفارہ ادا کرنے کے لئے دو مہینے کے روزے رکھنے کی صورت میں جماع سے پہلے دو مہینے مسلسل روزے رکھنا ضروری ہے اس طرح ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا بھی جماع کرنے سے پہلے ضروری ہے ۔
حدیث کے اس جملہ تا کہ یہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دیں کے بارے میں بظاہر ایک اشکال پیدا ہو سکتا ہے وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساٹھ مسکینوں کو کھلانے کے لئے حضرت سلمہ ابن صخر کو جو کھجوریں دلائیں ان کی مقدار خود روایت کی وضاحت کے مطابق پندرہ یا سولہ صاع تھی اس سے معلوم ہوا کہ ہر مسکین کو ایک ایک صاع دینا واجب نہیں ہے جب کہ فقہ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ اگر کھجوریں دی جائیں تو صدقہ فطر کی قدار کے برابر یعنی ایک ایک صاع دی جائیں۔
گویا حدیث کے اس جملہ اور فقہی حکم میں تعارض واقع ہو گیا لیکن اگر اس جملہ کا یہ ترجمہ کیا جائے گا کہ تا کہ یہ ان کھجوروں کو ساٹھ مسکینوں کو کھلانے میں صرف کر دیں ۔ تو پھر کوئی تعارض باقی نہیں رہے گا کیونکہ اس طرح اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کھجوروں میں اپنے پاس سے بھی کھجوریں ملا کر ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کر دو۔
اس کے علاوہ ابوداؤد دارمی کی دوسری روایت کے یہ الفاظ کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھجوریں کھلاؤ ) بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ صرف یہی کھجوریں ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کھجوروں میں اپنے پاس سے کھجوریں ملا کر ایک وسق کی مقدار پوری کر لو اور پھر ہر ایک مسکین کو ایک ایک صاع کھجور دے دو واضح رہے کہ ایک وسق ساٹھ صاع کے برابر ہوتا ہے۔