محلل اور محلل لہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لعنت
راوی:
عن عبد الله بن مسعود قال : لعن رسول الله المحلل والمحلل له . رواه الدارمي
حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم نے محلل اور محلل لہ پر لعنت فرمائی ہے (دارمی) ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت علی حضرت ابن عباس اور حضرت عقبہ ابن عامر سے نقل کیا ہے۔
تشریح :
فرض کیجئے کہ دو شخص ہیں ایک کا نام زید ہے اور دوسرے کا نام بکر ہے زید نے اپنی بیوی خالدہ کو تین طلاقیں دیدیں اور اس کی عدت کے دن پورے ہو گئے ہیں اب زید پھر چاہتا ہے کہ وہ خالدہ کو دوبارہ اپنی زوجیت میں لائے ۔ لہذا دوسرا شخص یعنی بکر خالدہ سے اس شرط یا ارادہ کے ساتھ نکاح کرتا ہے کہ جماع کے بعد خالدہ کو طلاق دیدی جائے گی تاکہ خالدہ کا پہلا شوہر زید کہ جس نے اس کو تین طلاقیں دی تھیں اس سے دوبارہ نکاح کر سکے اور خالدہ کا پہلا شوہر محلل لہ یعنی جس کے لئے حلالہ کیا گیا ) کہلائے گا۔
حدیث میں انہی دونوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لعنت فرمائی ہے حلالہ کرنیوالے پر لعنت فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے زبان سے تحلیل کی شرط کا اظہار و اقرار کرنے کے بعد اور محض جدائی اختیار کرنے کے قصد سے اس عورت سے نکاح کیا جب کہ نکاح اس لئے شروع ہوا ہے کہ اس کے ذریعہ مرد و عورت ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے رفیق حیات ودمساز رہیں، لہذا اس صورت میں نہ صرف یہ کہ نکاح کے اصل مقصد ومنشاء پر زد پڑتی ہے بلکہ عورت کی حرمت و عزت بھی مجروح ہوتی ہے اسی لئے ایک حدیث میں اس کو مستعار بکری سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اور محلل لہ یعنی پہلے خاوند پر لعنت فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت حال اور اس نکاح کا اصل باعث وہی بنا ہے لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس صورت میں عقد باطل ہوتا ہے بلکہ حدیث کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ عقد صحیح ہو جاتا ہے کیونکہ حدیث میں اس نکاح کرنیوالے کو محلل کہا گیا ہے اور یہ ایک ظاہر بات ہے کہ کوئی شخص محلل اسی صورت میں ہوتا ہے جب کہ عقد صحیح ہو عقد فاسد سے محلل نہیں ہوتا لہذا ثابت ہوا کہ اس ارشاد گرامی میں لعنت کا حقیقی مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ یہاں مراد محلل اور محلل لہ کی خساست طبع کو ظاہر کرنا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ یہ ایک قبیح فعل ہے جس کو کوئی سلیم الطبع انسان پسند نہیں کر سکتا ۔
حلالہ کے مکروہ تحریمی ہونے کی صورت :
ہدایہ اور فقہ کی دیگر کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حلالہ کو زبان سے مشروط کیا گیا ہو یعنی محلل اس عورت سے کہ جس کو اس کا خاوند تین طلاقیں دے چکا ہے یہ کہے کہ میں تم سے اس لئے نکاح کرتا ہوں کہ تمہیں اس خاوند کے لئے کہ جس نے تمہیں طلاق دی ہے حلال کر دوں یعنی میں تم سے صرف اس لئے نکاح کرتا ہوں کہ میں جماع کے بعد تمہیں طلاق دیدوں تا کہ تمہارے پہلے خاوند کے لے تم سے دوبارہ نکاح کرنا حلال ہو جائے یا وہ عورت محلل سے یوں کہے کہ میں تم سے اس لئے نکاح کرتی ہوں کہ میں اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جاؤں تو اس صورت میں حلالہ مکروہ تحریمی ہو گا ۔ ہاں اگر زبان سے یہ نہ کہا جائے مگر نیت میں یہ بات ہو تو پھر محلل نہ قابل مواخذہ ہو گا اور نہ لعنت کا مورد ہوگا کیونکہ اس صورت میں یہی کہا جائے گا کہ اس کا مقصد دراصل اصلاح احوال ہے۔
ابن ہمام نے کہا ہے کہ اس عورت نے کہ جس کو تین طلاقیں دی جا چکی ہیں غیر کفو سے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا اور پھر اس نے اس کے ساتھ جماع بھی کر لیا تو اس صورت میں وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہو گی چنانچہ فتوی اسی قول پر ہے۔