مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ لعان کا بیان ۔ حدیث 491

بیک وقت تین طلاق دینا حرام ہیں

راوی:

وعن محمود بن لبيد قل : أخبر رسول الله صلى الله عليه و سلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا فقام غضبان ثم قال : " أيلعب بكتاب الله عز و جل وأنا بين أظهركم ؟ " حتى قام رجل فقال : يا رسول الله ألا أقتله ؟ . رواه النسائي

اور حضرت محمود ابن لبید کہتے ہیں کہ جب رسول کریم کو اس شخص کے بارے میں بتایا گیا جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کیا اللہ عزوجل کی کتاب کے ساتھ کھیلا جاتا ہے ( یعنی حکم الٰہی کے ساتھ استہزاء کیا جاتا ہے) درآنحالیکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں یہ سن کر مجلس نبوی میں موجود صحابہ میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں؟ (نسائی)

تشریح :
اللہ عزوجل کی کتاب سے قرآن کریم کی یہ آیت (اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ ) 2۔ البقرۃ : 229) مراد ہے
اس آیت میں یہاں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں نہ دینی چاہئیں بلکہ متفرق طور پر دینی چاہئیں وہیں (وَلَا تَتَّخِذُوْ ا اٰيٰتِ اللّٰهِ ھُزُوًا) 2۔ البقرۃ : 231) کے ذریعہ یہ تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو لہو لعب کی طرح بے وقعت مت سمجھو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی طرف اشارہ فرمایا کہ متفرق طور پر طلاق دینے کی بجائے ایک ساتھ تینوں طلاقیں دینا حق تعالیٰ کے حکم ومنشاء کی خلاف ورزی ہے اور یہ خلاف ورزی گویا حق تعالیٰ کے احکام کے ساتھ استہزاء ہے ۔ کیونکہ جس شخص نے حق تعالیٰ کے حکم کے خلاف کیا اس نے درحقیقت اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس کی نظر میں حکم الٰہی کی کوئی وقعت نہیں ہے کہ اس پر عمل نہ کرنا اور کرنا دونوں برابر ہیں۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تین طلاق ایک ساتھ دینا بدعت وحرم ہے ۔ اور اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کے اس فعل پر غضب ناک ہوتے تھے جو گناہ و معصیت کا باعث ہوتا تھا حضرت امام شافعی کے نزدیک تین طلاق ایک ساتھ دینا حرام نہیں ہے بلکہ خلاف اولی ہے۔
علماء لکھتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ نہ دینے میں فائدہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد شاید اللہ تعالیٰ خاوند کے دل کو اس کی بیوی کی طرف مائل کر دے اور اس کے فیصلہ میں کوئی ایسی خوشگوار تبدیلی آ جائے کہ وہ رجوع کر لے اور ان دونوں کے درمیان مستقل جدائی کی نوبت نہ آئے۔
علماء کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یوں کہے کہ انت طالق ثلاثا (یعنی تجھ پر تین طلاق ہیں) تو آیا اس کی بیوی پر ایک طلاق پڑے گی یا تین طلاق واقع ہوں گی چنانچہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی حضرت امام ابوحنیفہ حضرت امام احمد اور جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں پڑیں گی جب کہ طاؤس اور بعض اہل ظاہریہ کہتے ہیں کہ ایک طلاق پڑھ گئ۔
ایک صحابی کا یہ کہنا کہ میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں؟ اس بناء پر تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو کتاب اللہ کے ساتھ استہزاء کرنیوالا کہا تھا جو کفر ہے اور اگر کوئی مسلمان کفر کی حد میں داخل ہو جائے تو اس کی سزا قتل ہے حالانکہ ان صحابی نے یہ نہیں جانا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں جو الفاظ ارشاد فرمائے ہیں وہ زجروتوبیخ پر مبنی ہیں ان کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں۔
اور حضرت مالک راوی ہیں کہ ان تک یہ حدیث پہنچی کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ یعنی کیا میری بیوی پر طلاق پڑھ گئی ہے یا نہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ وہ عورت تین طلاقوں کے ذریعہ تم سے جدا ہو گئی اور جو ستانوے طلاقیں باقی بچیں ان کے ذریعہ تم نے گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا مذاق اڑایا ( مؤطا)

تشریح :
اوپر کی حدیث میں جس آیت (اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ تا وَلَا تَتَّخِذُوْ ا اٰيٰتِ اللّٰهِ ھُزُوًا) 2۔ البقرۃ : 231-229) کا ذکر کیا گیا ہے حضرت ابن عباس نے اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تم نے اس طرح طلاق دے کر گویا حکم الٰہی کی خلاف ورزی کی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں