ہم جنس اشیاء کے باہمی تبادلہ وتجارت میں ربا کی صورت
راوی:
وعن عبادة بن الصامت قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء يدا بيد فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد " . رواه مسلم
حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے اور گیہوں گیہوں کے بدلے اور جو جو کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے اگر لیا دیا جائے تو ان کا لین دین (مقدار) میں مثل بمثل یعنی برابر سرابر ودست بدست ہونا چاہئے٫ اگر یہ قسمیں مختلف ہوں مثلا گیہوں کا تبادلہ جو کے ساتھ یا جو کا تبادلہ کھجور کے ساتھ ہو تو پھر اجازت ہے کہ جس طرح چاہو خرید وفروخت کرو (یعنی برابر سرابر ہونا ضروری نہیں ہے) البتہ لین دین کا دست بدست ہونا (اس صورت میں بھی) ضروری ہے (مسلم)
تشریح :
یہی وہ حدیث ہے جس نے ربا کے مفہوم کو وسعت دے کر خرید وفروخت اور لین دین کے بعض معاملات کو ربا اور سود قرار دیا ہے چنانچہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جن چھ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اگر ان کا باہمی تبادلہ یا ان کی باہمی خرید وفروخت کی جائے تو یہ ضروری ہے کہ لین دین برابر سرابر بھی ہو اور دست بدست بھی ہو برابر سرابر کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اپنا گیہوں بطور تبادلہ بیع دے تو اس سے اتنا ہی گیہوں لے جتنا خود دے دست بدست کا مطلب یہ ہے کہ جس مجلس میں معاملہ طے ہو اس مجلس میں دونوں فریق اپنا اپنا حق ایک دوسرے سے الگ ہونے سے پہلے ہی اپنے قبضے میں لے لیں یہ نہ ہونا چاہئے کہ ایک فریق تو نقد دے اور دوسرا یہ وعدہ کرے کہ میں بعد میں دے دونگا اگر اس حکم کے برخلاف ہوگا کہ یا لین دین برابر نہ ہو یا دست بدست نہ ہو تو اس صورت میں وہ معاملہ ربا یعنی سود کے حکم میں داخل ہو جائے گا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حدیث میں جن چھ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے آیا ربا کا حکم انہی چھ چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے یا یہ چیزیں بطور مثال کے بیان فرمائی گئی ہیں اور دوسری کچھ اشیاء بھی اس حکم میں داخل ہیں اور اگر دوسری اجناس بھی داخل ہیں تو ان کا ضابطہ کیا ہے۔
چنانچہ ائمہ مجتہدین کا یہ فیصلہ ہے کہ حدیث میں جن چھ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض مثال کے طور پر ہیں اور انہوں نے اپنے اجتہاد سے کچھ اور چیزوں مثلا لوہے چونے اور دیگر اجناس کو ان چھ چیزوں پر قیاس کیا ہے اور اس سلسلے میں ایک ضابطہ بنانے کے لئے ہر ایک نے اپنے اپنے اجتہاد سے ان چھ چیزوں میں ربا کی علت الگ الگ متعین کی ہے جس کی تفصیل یہ ہے :
حضرت امام مالک کے نزدیک ان چھ چیزوں میں سے سونے اور چاندی میں ربا کی علت تو ثمنیت (یعنی کسی چیز کی قیمت ہونے کی صلاحیت) ہے اور باقی چار چیزوں میں ربا کی علت قوت مذخر (یعنی محفوظ رہنے والی غذا) ہونا ہے اس اعتبار سے ان چھ چیزوں کے علاوہ بھی جن چیزوں میں ثمنیت پائی جائے گی یا جو چیزیں قوت مذخر ہوں گی ان سب میں ربا حرام ہوگا لہذا حضرت امام مالک کے مسلک میں ترکاریاں پھل اور کھانے کی ایسی اشیاء جو ( کافی عرصے تک) محفوظ نہ رہ سکتی ہوں وہ چیزیں ہیں جن کے باہمی تبادلہ اور خرید وفروخت حضرت امام شافعی کے نزدیک بھی سونے اور چاندی میں تو ربا کی علت ثمنیت ہے لیکن باقی چار چیزوں میں ربا کی علت محض قوت (یعنی صرف غذائیت) ہے ۔ لہذا ان کے مسلک میں ترکاریوں پھلوں اور ادویات کی چیزوں میں ربا کا حکم جاری ہوگا کہ ان چیزوں کے باہمی تبادلہ میں برابر سرابر لینا دینا تو جائز ہوگا مگر کمی بیشی کے ساتھ لین دین کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح حضرت امام شافعی کے ہاں لوہا تانبا پیتل دھات چونا اور اسی قسم کی دوسری اشیاء وہ چیزیں ہیں جن کے باہم تبادلہ میں ربا کا حکم جاری نہیں ہوگا مثلا ایک پیمانہ چونے کے بدلے میں دو پیمانے چونے کا لینا دینا درست ہے اسی طرح ایک سیر لوہے یا ایک سیر تانبے کے بدلے میں دو سیر لوہا یا دو سیر تانبا لینا دینا جائز ہے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں اصولی طور پر ربا کی علت قدر مع الجنس ہے اس اعتبار سے حنفی مسلک میں سونے اور چاندی میں ربا کی علت چونکہ مکیل ہے اس لئے ہر اس چیز کے باہمی لین دین میں ربا کا حکم جاری ہوگا جو مکیل (یعنی پیمانے کے ذریعے لی دی جانیوالی) ہو جیسے چونا وغیرہ اور یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ شریعت نے جس چیز کے مکیل یا موزون ہونے کا حکم صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اس میں تبدلی روا نہیں ہے مثلا سونے اور چاندی کو شریعت نے ان چیزوں میں شمار کیا ہے جو وزن کے ذریعے لی دی جاتی ہیں اس لئے یہ دونوں موزون کے حکم میں ہیں اگرچہ عام رواج اس کے برخلاف ہو اسی طرح گیہوں جو کھجور اور نمک کو شریعت نے ان چیزوں میں شمار کیا ہے جو کیل یعنی پیمانے کے ذریعے لی دی جاتی ہیں اس لئے یہ چیزیں مکیل کے حکم میں ہیں اگرچہ عام رواج اس کے برخلاف ہو لہذا سونے یا چاندی کے باہم لین دین کے جائز ہونے میں وزن اور کیل ہی کا اعتبار ہوگا کہ اگر سونے کو سونے کے بدلے یا چاندی کو چاندی کے بدلے لیا دیا جائے تو وزن کا برابر سرابر ہونا ضروری ہے وزن میں کمی بیشی قطعًا جائز نہیں ہوگی اسی طرح باقی چار چیزوں کے باہم لین دین کے جائز ہونے میں کیل کا اعتبار ہوگا کیونکہ اگرچہ عام رواج کے مطابق ان چیزوں کا لین دین وزن کے ذریعے ہوتا ہے لیکن شرعی طور پر یہ چیزیں مکیل ہی کے حکم میں ہوں گی۔ اس لئے اگر کوئی شخص کسی کو ایک من گیہوں کے بدلے میں ایک ہی من گیہوں دے تو تو یہ لین دین جائز نہ ہوگا تاوقتیکہ دونوں طرف کے گیہوں پیمانے کے اعتبار سے برابر سرابر نہ ہوں (لیکن یہ بات بھی پہلے صاف کی جا چکی ہے کہ حنفیہ میں حضرت امام ابویوسف کے نزدیک مطلقًا ہر چیز کے مکیل یا موزون ہونے میں عام رواج کا اعتبار ہے اور حنفیہ کے ہاں اس پر عمل ہے) جو کھجور اور نمک کا بھی یہی حکم ہے۔ ہاں جس چیز کا موزون یا مکیل ہونا شریعت نے صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے اس کے بارے میں عام رواج ہی کا اعتبار ہوگا کہ اگر وہ چیز عام رواج کے مطابق وزن کے ذریعے لی دی جاتی ہوگی تو وہ شرعی طور پر بھی موزون ہی کے حکم میں ہوگی کہ اس کے باہم لین دین میں وزن کا برابر سرابر ہونا ضروری ہوگا۔ اس لئے لوہا اور تانبا چونکہ عام رواج کے مطابق وزن کے ذریعے لیا دیا جاتا ہے اس لئے ان کے باہم لین دین میں وزن کا برابر سرابر ہونا ضروری ہے اگر وزن میں کمی بیشی ہوگی تو یہ ربا کے حکم میں داخل ہوگا۔
حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے اور گیہوں گیہوں کے بدلے اور جو جو کے بدلے اور کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے میں اگر دیا جائے تو ان کا لین دین برابر سرابر دست بدست ہونا چاہئے۔ لہذا جس نے ایسا نہیں کیا بلکہ زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا اور لیا تو گویا اس نے سود لیا اور سود دیا اور لینے دینے والا دونوں اس میں برابر ہیں (مسلم)