زبردستی دلوائی جانیوالی طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں
راوی:
وعن عائشة قالت : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " لا طلاق ولا عتاق في إغلاق " . رواه أبو داود وابن ماجه قيل : معنى الإغلاق : الإكراه
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اکراہ کی حالت میں نہ تو طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ آزادی (ابوداؤد) اور بیان کیا جاتا ہے کہ اغلاق کے معنی اکراہ کے ہیں۔
تشریح :
اکراہ کے معنی ہیں زبردستی کرنا لہذا حدیث کا یہ مطلب ہوا کہ اگر کوئی کسی سے زبردستی طلاق دلوا دے یا اس کا غلام آزاد کرا دے تو نہ طلاق پڑے گی اور نہ وہ غلام آزاد ہوگا۔
گویا یہ حدیث حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ ان تینوں ائمہ کے نزدیک دونوں چیزیں زبردستی کی حالت میں واقع نہیں ہوتیں جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ واقع ہو جاتی ہیں انہوں نے اس کو ہزل پر قیاس کیا ہے جس کا بیان اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے ویسے حضرت امام اعظم نے اپنے مسلک کی دلیل میں جو کچھ پیش کیا ہے وہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق زبردستی کی حالت میں بھی جن چیزوں کا حکم ثابت ہو جاتا ہے وہ گیارہ ہیں ( نکاح طلاق رجعت ایلاء فئی یعنی ایلاء سے رجوع کرنا ظہار عتاق عفو قصاص یعنی قصاص کو معاف کر دینا قسم نذر قبولیت اسلام