طلاق بت کا مسئلہ
راوی:
وعن ركانة بن عبد يزيد أنه طلق امرأته سهيمة البتة فأخبر بذلك النبي صلى الله عليه و سلم وقال : والله ما أردت إلا واحدة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " والله ما أردت إلا واحدة ؟ " فقال ركانة : والله ما أردت إلا واحدة فردها إليه رسول الله صلى الله عليه و سلم فطلقها الثانية في زمان عمر والثالثة في زمان عثمان . رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه والدارمي إلا أنهم لم يذكروا الثانية والثالثة
اور حضرت رکانہ ابن عبد یزید کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سہیمۃ کو طلاق بت دی اور پھر اس کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں نے ایک طلاق کی نیت کی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا واقعی اللہ کی قسم تم نے ایک طلاق کی نیت کی تھی؟رکانہ نے کہا کہ ہاں اللہ کی قسم میں نے ایک طلاق کی نیت کی تھی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عورت کو ان کی طرف لوٹا دیا پھر رکانہ نے اس عورت کو دوسری طلاق حضرت عمر کے عہد خلافت میں اور تیسری طلاق حضرت عثمان غنی کے عہد خلافت میں دی اس روایت کو ابوداؤد ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے نقل کیا ہے لیکن ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے اپنی روایت میں دوسری اور تیسری طلاق کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تشریح :
طلاق بت، کا مطلب یہ ہے کہ حضرت رکانہ نے ان الفاظ میں طلاق دی انت طالق البتۃ یعنی تجھ پر طلاق البتۃ ہے ) لفظ البتۃ بت کا اسم مرہ ہے جس کے معنی ہیں کاٹنا قطع کرنا لہذا طلاق بتہ کا مفہوم یہ ہوا کہ ایسی طلاق جو نکاح کا تعلق بالکل باقی نہیں رہنے دیتی اور عورت کو نکاح سے قطعی طور پر نکال دیتی ہے۔
ان کی عورت کو ان کی طرف لوٹا دیا کا مطلب حضرت امام شافعی کے نزدیک تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ کو رجوع کر لینے کا حکم دیا اور گویا رکانہ نے رجوع کر لینے کے اس حکم کی بناء پر ان الفاظ راجعتہا الی نکاحی میں نے اس کو اپنے نکاح میں لوٹا لیا) کے ذریعہ اس عورت کو اپنے نکاح میں واپس کر لیا۔
حضرت امام شافعی نے یہ مطلب اس لئے مراد لئے ہیں کہ ان کے نزدیک طلاق بتہ ایک طلاق رجعی ہے ہاں اگر اس کے ذریعہ دو یا تین طلاقوں کی نیت کی گئی ہو تو پھر نیت کے مطابق ہی دو یا تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنفیہ کے نزدیک چونکہ اس لفظ کے ساتھ طلاق دینے سے ایک طلاق بائن پڑتی ہے خواہ ایک طلاق کی نیت کی ہو یا دو طلاق کی یا اور کچھ بھی نیت نہ کی گئی ہو اس لئے ان کے نزدیک اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو جدید نکاح کے ذریعہ رکانہ کی طرف لوٹا دیا۔