مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ لعان کا بیان ۔ حدیث 478

کسی چیز کو اپنے اوپرحرام کرلینے سے کفار لازم آتا ہے

راوی:

وعن ابن عباس قال : في الحرام يكفر لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنةوعن عائشة : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يمكث عند زينب بنت جحش وشرب عندها عسلا فتواصيت أنا وحفصة أن أيتنا دخل عليها النبي صلى الله عليه و سلم فلتقل : إني أجد منك ريح مغافير أكلت مغافير ؟ فدخل على إحداهما فقالت له ذلك فقال : " لا بأس شربت عسلا عند زينب بنت جحش فلن أعود له وقد حلفت لا تخبري بذلك أحدا " يبتغي مرضاة أزواجه فنزلت : ( يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي مرضاة أزواجك )
الآية

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ کسی چیز کو حرام کر لینے پر کفارہ دے اور اس سلسلہ میں تمہارے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی بہتر ہے (بخاری ومسلم)

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اوپر کسی چیز خواہ وہ اپنی ہو یا کسی دوسری چیز کو حرام کر لے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم آتا ہے اور وہ چیز حرام نہیں ہوتی حضرت ابن عباس اسی کے قائل تھے اور حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے اگرچہ وہ چیز بذات خود حرام کیوں نہ ہو یا کسی دوسرے کی ملکیت کیوں نہ ہو مثلا یوں کہے کہ مجھ پر شراب حرام ہے یا فلاں کا مال مجھ پر حرام ہے تو یہ بمنزلہ قسم ہے بشرطیکہ اگر اس نے کسی حرام چیز کے بارے میں یہ کہا کہ یہ چیز مجھ پر حرام ہے اور اس سے اس کا مقصد اس چیز کے حرام ہونے کی خبر دینا نہ ہو لہذا جب وہ اس چیز کو کہ جسے اس نے اپنے اوپر حرام کیا ہے کھائے یا استعمال کرے گا تو وہ گویا حانث یعنی قسم توڑنے والا ہوگا اور اس پر وہی کفارہ لازم ہوگا جو قسم توڑنے پر لازم ہوتا ہے ہاں اگر اس نے اس چیز کو صدقہ کر دیا یا کسی کو ہبہ کر دیا تو پھر حانث نہیں ہوگا اور اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں آئے گا۔
چنانچہ حضرت ابن عباس نے اپنی اس بات کی تائید میں یہ آیت (وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ) 33۔ الاحزاب : 21) پڑھی اور اس طرف اشارہ کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کو اپنے اوپر حرام کیا تو اس آیت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ) 66۔ التحریم : 1) کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفارہ دینے کا حکم دیا گیا (جس کا تفصیلی ذکر اگلی روایت میں آئے گا) لہذا تم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی لازم ہے کہ اگر تم نے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور پھر اس چیز کو استعمال کر کے حانث ہو گئے تو کفارہ ادا کرو۔
اگر کوئی شخص یوں کہے کہ تمام حلال مال مجھ پر حرام ہے یا اللہ کی حلال کی ہوئی تمام چیزیں مجھ پر حرام ہیں تو ایسے قول کے بارے میں فتوی یہی ہے کہ اس طرح کہنے سے اس کی بیوی پر طلاق پڑھ جائے گی اگرچہ اس نے طلاق کی نیت نہ کی ہو اور اگر اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تم مجھ پر حرام ہو تو یہ ایلاء ہو جائے گا بشرطیکہ اس نے واقع حرام کرنے کی نیت کی ہو یا کچھ بھی نیت کی ہو اور اگر اس نے یہ کہتے وقت ظہار کی نیت کی ہو گی تو ظہار ہو جائے گا ۔ہاں اگر اس نے یہ کہتے وقت کہ تم مجھ پر حرام ہو جھوٹ کی نیت کی ہو تو بھی یہ کہنا ہدر (لغو) ہوگا یعنی اس کہنے سے عند اللہ تو کچھ نہیں ہوگا لیکن یہ معاملہ اگر حاکم کے ہاں پہنچا تو حاکم ایلاء کا حکم نافذ کر دے گا اور اگر یہ کہتے وقت اس نے طلاق کی نیت کی تو طلاق بائن پڑھ جائے گی اور اگر تین طلاق کی نیت کی تو تین طلاقیں پڑ جائیں گی ۔ اور فتوی اسی پر ہے کہ اگر طلاق کی نیت نہ بھی کرے تو تو بھی طلاق بائن پڑھ جائے گی۔
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک بیوی حضرت زینب بنت جحش کے پاس ٹہر جایا کرتے تھے اور وہاں شہد پیا کرتے تھے چنانچہ ایک دین میں نے اور حفصہ نے آپس میں یہ طے کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے جس کے پاس تشریف لائیں تو وہ یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے مغافیر کی بو آتی ہے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے ؟ چنانچہ جب ان دونوں میں سے ایک یعنی حضرت عائشہ یا حضرت حفصہ کے پاس تشریف لائے تو اس نے یہی کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں میں نے زینب بنت جحش کے ہاں شہد پیا ہے اب میں کبھی شہد نہیں پیوں گا۔ میں نے قسم کھا لی ہے لیکن تم کسی کو یہ نہ بتانا تا کہ اس بات سے زینب کی دل شکنی نہ ہو کہ اب میں ان کے ہاں شہد نہیں پیوں گا اور اس سے یعنی شہد کو اپنے اوپر حرام کر لینے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اپنی بیویوں کو خوش کرنا تھا چنانچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی آیت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ) 66۔ التحریم : 1) (یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ محض اپنی بیویوں کی خوشنودی کی خاطر اپنے اوپر اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حلال کر دیا ہے ۔

تشریح : حضرت زینب بنت جحش کے پاس ٹھہر جایا کرتے تھے، یہ ان کی نوبت باری کے دن کا ذکر نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی ازواج مطہرات کے ہاں گشت کے لئے نکلتے اور حضرت زینب کے گھر تشریف لاتے تو اس وقت ان کے پاس ٹھہر جایا کرتے تھے۔
مغافیر ایک درخت کے پھل کا نام ہے جو گوند کے مشابہ ہوتا ہے اس کی بو خراب ہوتی ہے اور ایک گونہ شہد کی بو کی مشابہت رکھتی ہے۔
اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد بہت مرغوب تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گشت کے وقت حضرت زینب کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پلایا کرتی تھیں اس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب کے ہاں کچھ زیادہ دیر ٹھہر جایا کرتے تھے یہ بات حضرت عائشہ کو ناگوار گزری اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور بیوی حضرت حفصہ سے کہ جو حضرت عائشہ کے بہت قریب تھیں اور اکثر معاملات میں ان سے اتفاق کرتی تھیں مذکورہ بالا بات کہنے کا مشورہ کیا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب کے ہاں ٹھہرنا اور ان کے گھر میں شہد پینا چھوڑ دیں چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ ذکر کیا گیا لیکن حق تعالیٰ کے ہاں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک حلال چیز کو محض اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لئے اپنے اوپر حرام کر لیں چنانچہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔

یہ حدیث شیئر کریں