حالت حیض میں طلاق دینے کی ممانعت
راوی:
وعن عبد الله بن عمر : أنه طلق امرأة له وهي حائض فذكر عمر لرسول الله صلى الله عليه و سلم فتغيظ فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم قال : " ليراجعها ثم يمسكها حتى تطهر ثم تحيض فتطهر فإن بدا له أن يطلقها فليطلقها طاهرا قبل أن يمسها فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء " . وفي رواية : " مره فليراجعها ثم ليطلقها طاهرا أو حاملا "
اور حضرت عبداللہ ابن عمر کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضرت عمر نے اس کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ سے بہت غصہ ہوئے اور فرمایا کہ اس گناہ کا تدارک کرنے کے لئے) عبداللہ کو چاہئے کہ وہ اس عورت سے رجوع کرے یعنی مثلا یوں کہے کہ میں نے اس کو اپنے نکاح میں واپس لے لیا) اور پھر اس کو اپنے پاس رکھے یہاں تکہ کہ وہ پاک ہو جائے اور پھر جب وہ حائضہ ہو اور اس کے بعد پاک ہو جائے اور پھر جب وہ حائضہ ہو اور اس کے بعد پاک ہو جائے اور طلاق دینا ضروری ہو تو پاکی کی حالت میں اسے طلاق دے قبل اس کے کہ اس سے جماع کرے ، پس یہی وہ عدت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے ۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا کہ عبداللہ کو حکم دو کہ وہ اس عورت سے رجوع کرے اور پھر اس کو پاکی کی حالت میں بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو اور حیض آتا ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دے (بخاری ومسلم)
تشریح :
فتغیظ فیہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ سے بہت غصہ ہوئے) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حالت حیض میں طلاق دینا حرام ہے کیونکہ اگر یہ حرام نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ پر غصہ نہ ہوتے ۔ اور حالت حیض میں طلاق دینا حرام اس لئے ہے کہ ہو سکتا ہے کہ طلاق دینے والے نے حالت حیض میں محض کراہت طبع کے سبب طلاق دی ہو اور وہ مصلحت اس کے طلاق دینے کیوجہ سے نہ ہو جس کی بناء پر طلاق دینا حرام ہو ۔ مگر کوئی شخص اگر حالت حیض میں طلاق دیدے تو طلاق پڑھ جائے گی یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کو رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ بالکل ظاہر بات ہے کہ رجوع کرنا طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں دوسرے طہر (یعنی دوسرے حیض کے بعد پاکی کی حالت ) تک طلاق کو مؤخر کرنے میں کیا مصلحت ہے؟ سیدھی بات تو یہ ہے کہ حکم یہ ہوتا کہ جس حیض میں طلاق دی گئی ہے اور پھر رجوع کیا گیا ہے اسی حیض کے گزرنے کے بعد پاکی کی حالت میں طلاق دی جائے لیکن اس کے برعکس اس کو دوسرے طہر تک مؤخر کیا گیا ہے، چنانچہ اس کے بارے میں علماء کہتے ہیں کہ اس کی کئی وجہیں ہیں اول تو یہ کہ رجوع کرنا صرف طلاق کی غرض سے نہ ہو لہذا طلاق دینے کو ایک ایسی مدت تک کے لئے مؤخر کر دینا چاہئے جس میں ایک طرف تو طلاق دینا حلال اور دوسری طرف طلاق کے فیصلہ پر نظرثانی کا موقع بھی مل جائے اور شاید کوئی ایسی راہ نکل آئے کہ طلاق دینے کی نوبت ہی نہ آئے اور ظاہر ہے کہ ان دونوں مصلحتوں کی رعایت دوسرے طہر ہی میں ہو سکتی ہے۔
دوم یہ کہ اتنی مدت تک کے لئے طلاق دینے کو مؤخر کرنا دراصل طلاق دینے والے کے اس فعل بد یعنی حالت حیض میں طلاق دینے کی سزا ہے سوم یہ کہ جس حیض کی حالت میں طلاق دی گئی ہے وہ اور اس کے بعد کا طہر یعنی پاکی کی حالت دونوں گویا ایک ہی چیز کے حکم میں ہیں لہذا اگر پہلے طہر میں دی گئی تو گویا حیض ہی کی حالت میں دی لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ ان تینوں وجہوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دوسرے طہر تک طلاق سے باز رہنا واجب نہیں ہے بلکہ اولی ہے۔
طلاق کی قسمیں : یہ بات جاننی چاہئے کہ وقت و محل کے اعتبار سے نفس طلاق کی تین قسمیں ہیں
١) احسن ٢) حسن ۔ حسن کو سنی بھی کہتے ہیں ٣) بدعی
طلاق احسن کی صورت یہ ہے کہ ایک طلاق رجعی ایسے طہر پاکی کی حالت میں دی جائے جس میں جماع نہ کیا ہو اور پھر اس کو اسی حالت میں چھوڑے یعنی پھر نہ تو اس کو اور طلاق دے اور نہ اس سے جماع کرے) یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہو جائے طلاق کی یہ پہلی قسم سب سے بہتر ہے۔
طلاق حسن : کی صورت یہ ہے کہ ایک طلاق حسن رجعی ایسے طہر پاکی کی حالت میں دی جائے جس میں جماع نہ کیا ہو بشرطیکہ عورت مدخول بہا ہو اور اگر عورت غیر مدخول بہا ہو تو اس کے لئے ایک طلاق حسن ہے نیز اس کو حیض کی حالت میں بھی طلاق دی جا سکتی ہے اور آئسہ صغیرہ اور حاملہ عورتوں کے لئے طلاق حسن یہ ہے کہ ان کو تین مہینہ تک ہر مہینہ میں ایک طلاق دی جائے نیز ان عورتوں کو جماع کے بعد بھی طلاق دینا جائز ہے طلاق کی یہ دوسری قسم بھی بہتر ہے۔
طلاق بدعی : کی صورت یہ ہے کہ مدخول بہا کو ایک ہی طہر میں یا ایک ہی دفعہ میں تین طلاقیں دیدے یا ایسی دو طلاقیں دے جس میں رجعت کی گنجائش نہ ہو یا اس کو اس طہر میں طلاق دے جس میں جماع کر چکا ہو اس طرح اگر کسی شخص نے حیض کی حالت میں طلاق دی تو یہ بھی طلاق بدعی کے حکم میں ہے اور اگر وہ عورت کہ جس کو حیض کی حالت میں طلاق دی ہے مدخول بہا ہو تو صحیح تر روایت کے مطابق اس سے رجوع کرنا واجب ہے جب کہ بعض علماء نے رجوع کرنے کو مستحب کہا ہے، پھر جب وہ پاک ہو جائے اور اس کے بعد دوسرا حیض آئے اور پھر اس سے بھی پاک ہو جائے تب اگر طلاق دینا ضروری ہو تو اس دوسرے طہر میں طلاق دی جائے طلاق کی یہ تیسری قسم شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے گو طلاق واقع ہو جاتی ہے مگر طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔
وقوع کے اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں : رجعی ۔ بائن :
طلاق رجعی کی صورت یہ ہے کہ طلاق دینے والا ایک بار یا دو صریح الفاظ میں یوں کہے کہ انت طالق یا طلقتک یا اردو میں یہ کہے تجھ پر طلاق ہے یا میں نے تجھے طلاق دی اس طرح طلاق دینے سے طلاق دینے والا ایام عدت میں بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے یعنی اگر وہ یوں کہے کہ میں نے تجھ سے رجوع کیا یا اس کو ہاتھ لگائے یا مساس کرے اور یا اس سے جماع کرے تو اس سے رجوع ہو جاتا ہے جدید نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔
طلاق بائن : کی صورت یہ ہے کہ طلاق کے صریح الفاظ کی بجائے ایسے الفاظ کے ذریعہ طلاق دی جائے جو اگرچہ صراحۃ طلاق کے لئے استعمال نہ ہوتے ہوں مگر کنایۃ وہ طلاق کا مفہوم بھی ادا کرتے ہوں علاوہ ان تین الفاظ کنایات کے جن کو فقہاء نے صریح طلاقوں کے لئے تسلیم کیا ہے طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ عورت نکاح سے نکل جاتی ہے تجدید نکاح کے بغیر اس عورت کو بیوی بنا کر رکھنا حرام ہے۔
حکم اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی طلاق
کی دو قسمیں ہیں مغلظہ مخففہ :
طلاق مغلظہ کی صورت یہ ہے کہ یکبارگی تین طلاقیں دی جائیں مثلا یوں کہے کہ میں نے طلاق دی یا الگ الگ تین طلاقیں دی جائیں مثلا یوں کہے کہ میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی) اس طلاق کے بعد طلاق دینے والا اس عورت کو دوبارہ اپنے نکاح میں بغیر حلالہ نہیں لا سکتا حلالہ کی صورت یہ ہے کہ وہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور دوسرا مرد اس سے جماع کر کے اس کو طلاق دے دے اور پھر جب اس کی عدت پوری ہو جائے تو پہلا شوہر اس سے نکاح کر لے۔
طلاق مخففہ کی صورت یہ ہے کہ یکبارگی یا الگ الگ دو طلاقیں دے یا ایک طلاق دے پھر اگر یہ دو طلاقیں یا ایک طلاق الفاظ صریح کے ساتھ ہو تو عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے تجدید نکاح کی ضرورت نہیں اور اگر الفاظ کنایہ کے ساتھ ہو تو تجدید نکاح کے بعد اس کو اپنی بیوی بنا سکتا ہے حلالہ کی ضرورت نہیں۔
کن لوگوں کی طلاق واقع ہوتی ہے اور کن لوگوں کی واقع نہیں ہوتی
ہر عاقل وبالغ کی دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام اور خواہ وہ اپنی خوشی سے طلاق دے یا کسی کے جبر واکراہ سے دے یا نشہ کی حالت میں دے۔
اسی طرح اگر عاقل وبالغ شوہر گونگاہ و اور وہ اشارہ معہودہ کے ذریہ طلاق دے تو اس کی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے اور لڑکے اور دیوانے کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اسی طرح اگر سویا ہوا شخص طلاق دے اور بیدار ہونے کے بعد کہے کہ میں نے تجھے سوتے میں طلاق دی ہے تو اس کی طلاق بھی واقع نہیں ہوگی اگر کسی مالک نے اپنے غلام کی بیوی کو طلاق دی تو اس کی طلاق دی تو اس کی طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔
طلاق میں اصلی اعتبار عورت کا ہے چنانچہ آزاد عورت کے لئے تین طلاقیں ہیں اگرچہ وہ کسی غلام کے نکاح میں ہو اسی طرح لونڈی کے لئے دو طلاقیں ہیں اگرچہ وہ کسی آزاد مرد کے نکاح میں ہو۔