مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 470

سخت سے سخت حکم میں بھی شوہر کی اطاعت کرو

راوی:

وعن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان في نفر من المهاجرين والأنصار فجاء بعير فسجد له فقال أصحابه : يا رسول الله تسجد لك البهائم والشجر فنحن أحق أن نسجد لك . فقال : " اعبدوا ربكم وأكرموا أخاكم ولو كنت آمر أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها ولو أمرها أن تنقل من جبل أصفر إلى جبل أسود ومن جبل أسود إلى جبل أبيض كان ينبغي لها أن تفعله " . رواه أحمد

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک اونٹ آپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا ( یہ دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ جب چوپایہ جانور اور درخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرتے ہیں جو ناسمجھ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و احترام کے مکلف بھی نہیں ہیں) تو ہم ان سے زیادہ اس لائق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کی یعنی میری تعظیم کرو اگر میں کسی کو کسی غیر اللہ کا سجدہ کرنے کا حکم دے سکتا تو یقینا عورت کو یہ حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے اگر اس کا شوہر اس کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو اس عورت کے لئے یہی لائق ہے کہ وہ اپنے شوہر کا یہ حکم بجا لائے ( احمد)

تشریح :
اپنے پروردگار کی عبادت کرو کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ دراصل عبادت ہے اور عبادت کا مستحق صرف پروردگار ہے اللہ کے علاوہ کوئی بھی ذات خواہ نبی ہی کیوں نہ ہو کسی کا معبود نہیں بن سکتی تو مجھے اپنا مسجود بنا کر گویا مجھے اللہ کی بندگی میں شریک کرنا چاہتے ہو حالانکہ اللہ نے مجھے نبی بنا کر تمہارے درمیان اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ میں تم سے اپنی عبادت کرا کر تمہیں شرک کی آلائش میں مبتلا کروں بلکہ میں تو اس دنیا میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں شرک کی ظلمت سے نکال کر خدائے واحد کی بندگی کے راستہ پر لگا دوں اور تمہیں یہ تعلیم دوں کہ تمہاری اس مقدس پیشانی کو صرف اللہ کے سامنے جھکنا چاہئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا قرآن کریم کی تلاوت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ا یت (وما کان لبشر ان یؤ تیہ اللہ الکتاب والحکم والنبوۃ ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون اللہ ولکن کونوا ربانیین) ( آل عمران ٣ : ٧٩)
کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب دین کا فہم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ اس کو کہنا چاہئے کہ اے لوگو تم اللہ والے بن جاؤ!
جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹ کے سجدہ کرنے کا سوال ہے تو اس میں کوئی خلجان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اونٹ کا سجدہ کرنا خرق عادت یعنی عادت او قانون قدرت کے خلاف ایک انوکھی بات ہونے کے طور پر تھا جو اونٹ کو اللہ تعالیٰ کے مسخر کر دینے کے سبب واقع ہوا تھا اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم وفعل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دخل نہیں تھا پھر یہ کہ اونٹ معذور محض تھا کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں اور فرشتوں کا حق حضرت علیہ السلام کو سجدہ کرنا اس وجہ سے محل اشکال نہیں ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری پر مجبور تھے اسی طرح اونٹ کو بھی حق تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرے اور وہ اس حکم کی تعمیل پر مجبور تھا۔
اور اپنے بھائی کی یعنی میری تعظیم کرو کا مطلب یہ ہے کہ میری ذات اور میرے منصب کے تئیں تمہاری عقیدت ومحبت کا بس اتنا تقاضہ ہونا چاہئے کہ تم اپنے دل میں میری محبت رکھو اور ظاہر و باطن میں میری اطاعت کرو۔
پہاڑوں کے رنگ کا مقصد ان پہاڑوں کے درمیان فاصلہ کی مسافت ودوری کو زیادہ سے زیادہ بیان کرنا ہے کیونکہ اس طرح کے پہاڑ ایک دوسرے کے قریب نہیں پائے جاتے لہذا اس جملہ کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دو پہاڑ ایک دوسرے سے بہت دور واقع ہوں اور خاوند اپنی بیوی کو یہ حکم دے کہ ایک پہاڑ سے پتھر اٹھا کر دوسرے پہاڑ پر جاؤ تو بیوی کو اس سخت حکم کی تعمیل کرنی چاہئے۔ حاصل یہ کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو اتنا سخت ترین حکم بھی دے تو بیوی کے یہی لائق ہے کہ وہ اس حکم کو بجا لائے۔

یہ حدیث شیئر کریں