مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 462

بدزبان بیوی کو طلاق دے دو

راوی:

وعن لقيط بن صبرة قال : قلت : يا رسول الله إن لي امرأة في لسانها شيء يعني البذاء قال : " طلقها " . قلت : إن لي منها ولدا ولها صحبة قال : " فمرها " يقول عظها " فإن يك فيها خير فستقبل ولا تضربن ظعينتك ضربك أميتك " . رواه أبو داود

حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ایک عورت ہے جس کی زبان میں کچھ ہے یعنی وہ زبان دراز ہے اور فحش بکتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اگر تم اس کی زبان درازی اور فحش گوئی کی ایذاء پر صبر نہیں کر سکتے تو بہتر یہ ہے کہ تم اس کو طلاق دے دو گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حکم بطور اباحت دیا میں نے عرض کیا کہ اس کے بطن سے میرے ہاں اولاد ہے اور اس کے ساتھ پرانی رفاقت اور صحبت ہے اس لئے اس کو طلاق دینا بھی میرے لئے مشکل ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو پھر اس کو حکم کرو، یعنی اس کو زبان درست کرنے اور اپنی عادات واطوار ٹھیک کرنے کی نصیحت کرو، اگر اس میں کچھ بھی بھلائی ہوگی تو وہ تمہاری نصیحت کو قبول کر لے گی اور اس کو لونڈی کی مار نہ مارو۔ (ابو داؤد)

تشریح :
(یقول عظہا) کے الفاظ راوی کے ہیں جن کے ذریعہ وضاحت مقصود ہے کہ اس ارشاد فمرہا (تو پھر اس کو حکم کرو) سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ تھی کہ اس کو نصیحت کرو۔ حدیث کے آخری جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ پہلے اپنی بیوی کو زبانی نصیحت وتنبیہ کے ذریعہ زبان درازی اور فحش گوئی سے باز رکھنے کی کوشش کرو اگر اس پر زبانی نصیحت وتنبیہ کا کوئی اثر نہ ہو تو پھر اس کو مارو لیکن بے رحمی کے ساتھ نہ مارو بلکہ ہلکے سے تھوڑا سا مارو ۔

یہ حدیث شیئر کریں