مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 461

خاوند اپنی بیوی کو تادیباً مار سکتا ہے یا نہیں ؟

راوی:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد وعورت انسانی نقطہ نظر سے یکساں مرتبہ کے حامل ہیں اور اسلام کی نظر میں عورت کو بھی وہ شرف ومرتبہ حاصل ہے جو ایک مرد کو ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جب ایک مرد اور ایک عورت آپس میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر ایک دوسرے کے رفیق حیات بن جاتے ہیں تو ان دونوں کی شرعی اور معاشرتی حیثیت میں تھوڑا سا فرق ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ خاوند کو قدرتی طور پر ایک مخصوص قسم کی برتری حاصل ہو جاتی ہے جس کا تعلق انسانی شرف ومرتبہ کے فرق وامتیاز سے نہیں ہوتا بلکہ ان کے باہمی رشتہ کے تقاضوں اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی سے ہوتا ہے چنانچہ شوہر اپنی اسی مخصوص برتری کی بنیاد پر بیوی کو ان معاملات میں اپنے حکم کا پابند بنانے کا اختیار رکھتا ہے جن کا شریعت نے اسے استحقاق عطا کیا ہے یا جن کا تعلق شرع فرائض وواجبات کی ادائیگی سے ہے لہٰذا اگر کوئی بیوی ان معاملات میں اپنے شوہر کے حکم کی پابندی نہ کرے اور شوہر کے کہنے سننے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا ہے، یعنی زبانی نصیحت وتنبیہ کا کوئی اثر قبول نہ کرتی ہو اور شوہر کو یقین ہو جائے کہ اب یہ بغیر سختی کے راہ راست پر نہیں آئے گی تو اسے بیوی کو مارنے کی اجازت ہوگی لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ ہونی چاہئے کہ بیوی کی ایسی نافرمانی کہ جس پر اس کا شوہر اس کو مار سکتا ہے صرف انہی امر میں معتبر ہوگی جن کی شریعت نے وضاحت کر دی ہے چنانچہ فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو چار باتوں پر مار سکتا ہے۔
١۔ شوہر کی خواہش وحکم کے باوجود بیوی زینت وآرائش نہ کرے۔
٢۔ شوہر جماع کا خواہش مند ہو مگر بیوی کوئی عذر جیسے حیض وغیرہ نہ ہونے کے باوجود انکار کر دے۔
٣۔ اسلامی فرائض جیسے نماز پڑھنا چھوڑ دے، جنابت وناپاکی کے بعد بیوی کا نہ نہانا بھی ترک فرائض کے حکم میں ہے یعنی اگر بیوی ناپاکی اور حیض کا غسل کرنے سے انکار کرتی ہو تو شوہر اس پر بھی مار سکتا ہے۔
4۔ بیوی اپنے شوہر کی اجازت ورضامندی کے بغیر گھر سے باہر جاتی ہو۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی کی کسی نافرمانی یا اس کی کسی بات پر ناراضگی کی وجہ سے اس سے جدائی اختیار کرنے ہی میں مصلحت ہو تو ہمیشہ کے لئے جدائی اختیار کرنے کی بجائے یہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنے بستر پر اس سے جدائی اختیار کر لو یعنی اس کے ساتھ لیٹنا چھوڑ دو اور رات کو گھر میں نہ رہو تا کہ وہ تمہارے اس طرز عمل کو اپنے حق میں سزا سمجھ کر راہ راست پر آجائے اور ہمیشہ کی جدائی یعنی طلاق کی نوبت نہ آئے چنانچہ قرآن کریم میں اس بات کو یوں فرمایا گیا ہے۔ آیت (واللاتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن)۔ (النساء ٤ : ٣٤) اگر جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بددماغی یعنی نافرمانی کا احتمال ہو تو ان کو پہلے زبانی نصیح کرو اور پھر ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو ۔ یعنی ان کے پاس مت لیٹو۔ اور پھر اعتدال سے ان کو مارو۔

یہ حدیث شیئر کریں