مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 460

شوہر پر بیوی کا حق

راوی:

وعن حكيم بن معاوية القشيري عن أبيه قال : قلت : يا رسول الله ما حق زوجة أحدنا عليه ؟ قال : " أن تطعمها إذا طعمت وتكسوها إذا اكتسيت ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر إلا في البيت " . رواه أحمد وأبو داود وابن ماجه

حضرت حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس کے شوہر پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کہ جب تم کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ جب تم پہنو تو اس کو بھی پہناؤ یعنی جس طرح تم کھاؤ پہنو اسی طرح اپنی بیوی کو بھی کھلاؤ پہناؤ ۔ اس کے منہ پر نہ مارو نہ اس کو برا کہو اور نہ یہ کہو کہ اللہ تیرا برا کرے اور اس سے صرف گھر کے اندر ہی علیحدگی اختیار کرو ۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ)

تشریح :
بطور خاص منہ پر نہ مارنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ تمام اعضا میں منہ ہی افضل ہے اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ کہ کسی معقول وجہ کی بنیاد پر مثلاً فواحش کے صدور پر یا فرائض ترک کر دینے پر اور یا مصلحت تادیب کے پیش نظر منہ کے علاوہ کسی اور جگہ پر مارے تو جائز ہے اور منہ پر مارنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔
خاوند اپنی بیوی کو تادیباً مار سکتا ہے یا نہیں ؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد وعورت انسانی نقطہ نظر سے یکساں مرتبہ کے حامل ہیں اور اسلام کی نظر میں عورت کو بھی وہ شرف و مرتبہ حاصل ہے جو ایک مرد کو ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جب ایک مرد اور ایک عورت آپس میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر ایک دوسرے کے رفیق حیات بن جاتے ہیں تو ان دونوں کی شرعی اور معاشرتی حیثیت میں تھوڑا سا فرق ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ خاوند کو قدرتی طور پر ایک مخصوص قسم کی برتری حاصل ہو جاتی ہے جس کا تعلق انسانی شرف و مرتبہ کے فرق و امتیاز سے نہیں ہوتا بلکہ ان کے باہمی رشتہ کے تقاضوں اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی سے ہوتا ہے چنانچہ شوہر اپنی اسی مخصوص برتری کی بنیاد پر بیوی کو ان معاملات میں اپنے حکم کا پابند بنانے کا اختیار رکھتا ہے جن کا شریعت نے اسے استحقاق عطا کیا ہے یا جن کا تعلق شرع فرائض و واجبات کی ادائیگی سے ہے لہٰذا اگر کوئی بیوی ان معاملات میں اپنے شوہر کے حکم کی پابندی نہ کرے اور شوہر کے کہنے سننے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا ہے، یعنی زبانی نصیحت وتنبیہ کا کوئی اثر قبول نہ کرتی ہو اور شوہر کو یقین ہو جائے کہ اب یہ بغیر سختی کے راہ راست پر نہیں آئے گی تو اسے بیوی کو مارنے کی اجازت ہوگی لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ ہونی چاہئے کہ بیوی کی ایسی نافرمانی کہ جس پر اس کا شوہر اس کو مار سکتا ہے صرف انہی امر میں معتبر ہو گی جن کی شریعت نے وضاحت کر دی ہے چنانچہ فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو چار باتوں پر مار سکتا ہے۔
١۔ شوہر کی خواہش وحکم کے باوجود بیوی زینت و آرائش نہ کرے۔
٢۔ شوہر جماع کا خواہش مند ہو مگر بیوی کوئی عذر جیسے حیض وغیرہ نہ ہونے کے باوجود انکار کر دے۔
٣۔ اسلامی فرائض جیسے نماز پڑھنا چھوڑ دے، جنابت و ناپاکی کے بعد بیوی کا نہ نہانا بھی ترک فرائض کے حکم میں ہے یعنی اگر بیوی ناپاکی اور حیض کا غسل کرنے سے انکار کرتی ہو تو شوہر اس پر بھی مار سکتا ہے۔
4۔ بیوی اپنے شوہر کی اجازت و رضامندی کے بغیر گھر سے باہر جاتی ہو۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی کی کسی نافرمانی یا اس کی کسی بات پر ناراضگی کی وجہ سے اس سے جدائی اختیار کرنے ہی میں مصلحت ہو تو ہمیشہ کے لئے جدائی اختیار کرنے کی بجائے یہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنے بستر پر اس سے جدائی اختیار کر لو یعنی اس کے ساتھ لیٹنا چھوڑ دو اور رات کو گھر میں نہ رہو تا کہ وہ تمہارے اس طرز عمل کو اپنے حق میں سزا سمجھ کر راہ راست پر آ جائے اور ہمیشہ کی جدائی یعنی طلاق کی نوبت نہ آئے چنانچہ قرآن کریم میں اس بات کو یوں فرمایا گیا ہے۔ آیت (واللاتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن)۔ (النساء ٤ : ٣٤) اگر جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بد دماغی یعنی نافرمانی کا احتمال ہو تو ان کو پہلے زبانی نصیحت کرو اور پھر ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو۔ یعنی ان کے پاس مت لیٹو۔ اور پھر اعتدال سے ان کو مارو۔

یہ حدیث شیئر کریں