مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 454

اپنے اہل وعیال کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بہترین شخص ہے

راوی:

وعنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي وإذا مات صاحبكم فدعوه " . رواه الترمذي . والدارمي
(2/238)

3253 – [ 16 ] ( صحيح )
ورواه ابن ماجه عن ابن عباس إلى قوله : " لأهلي "

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل بیوی بچوں اقرباء اور خدمت گاروں کے حق میں بہترین ہو اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں یعنی اپنے اہل وعیال سے جتنا بہتر سلوک میں کرتا ہوں اپنے اہل وعیال کے ساتھ اتنا بہتر سلوک تم میں سے کوئی بھی نہیں کرتا اور جب تمہارا صاحب مر جائے تو اس کو چھوڑ دو ۔ (ترمذی ودارمی) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے لفظ لاھلی تک نقل کیا ہے۔

تشریح :
حدیث کے پہلے جزو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اور اللہ کی مخلوق کے نزدیک تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی اپنے بچوں اپنے عزیزوں واقا رب اور اپنے خدمت گاروں و ماتحتوں کے ساتھ بھلائی اور اچھا سلوک کرتا ہے کیونکہ اس کا بھلائی اور اچھا سلوک کرنا اس کی خوش اخلاقی وخوش مزاجی پر دلالت کرتا ہے۔
" اور جب تمہارا صاحب مر جائے الخ" کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارا کوئی عزیز و رشتہ دار یا دوست وغیرہ مر جائے تو اس کی برائیوں کو ذکر کرنا چھوڑ دو ۔ گویا اس جملہ کے ذریعہ یہ تعلیم مقصود ہے کہ جو لوگ اس دنیا سے اٹھ چکے ہیں ان کی غیبت نہ کرو ۔ جیسا کہ ایک روایت میں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے مرے ہوئے لوگوں کو بھلائی کے ساتھ یاد کرو یعنی صرف ان کی خوبیاں ہی ذکر کرو ان کی برائیوں کا تذکرہ نہ کرو ۔
بعض علماء نے اس جملہ کی یہ مراد بیان کی ہے کہ جب کوئی شخص مر جائے تو اس کی محبت اور اس کی موت پر رونا دھونا چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ اب اس کے ساتھ تمہارا کوئی جسمانی تعلق باقی نہیں رہا ہے۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جملہ میں " صاحب" سے اپنی ذات مبارک مراد رکھی ہے جس کا مطلب امت کو یہ تلقین کرنا ہے کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو تم تاسف اور تحیر واضطراب کا اظہار نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا کا رساز ہے جس ذات پاک نے میری حیات کو تمہاری ہدایت وسعادت کا ذریعہ بنایا تھا، وہی ذات پاک میرے انتقال کے بعد بھی تمہیں اسی ہدایت وسعادت پر قائم رکھے گی۔
بعض حضرات نے اس جملہ کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو تم مجھے چھوڑے رکھنا بایں معنی کہ میرے اہل بیت، میرے صحابہ اور میری شریعت کے متبعین یعنی علماء واولیاء کو ایذاء پہنچا کر مجھے ایذاء پہنچانے کا سبب نہ بننا کیونکہ اگر تم انہیں تکلیف وایذاء پہنچاؤ گے تو ان کی تکلیف سے مجھے تکلیف پہنچے گی۔

یہ حدیث شیئر کریں