مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 452

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایلاء کا واقعہ

راوی:

وعن عائشة قالت : كنت أغار من اللاتي وهبن أنفسهن لرسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت : أتهب المرأة نفسها ؟ فلما أنزل الله تعالى : ( ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك )
قلت : ما أرى ربك إلا يسارع في هواك . متفق عليه . وحديث جابر : " اتقوا الله في النساء " وذكر في " قصة حجة الوداع "

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی جو اپنے نفس کو رسول اللہ کے لئے ہبہ کر دیتی تھیں چنانچہ میں کہا کرتی تھی کہ کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کر سکتی ہے؟ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی ۔ اے محمد! ان عورتوں میں سے جس کو آپ چاہیں علیحدہ کر دیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور جن عورتوں کو آپ نے علیحدہ کر دیا ہے اگر ان میں سے کسی کو آپ بلائی تو کوئی گناہ نہیں ۔ تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ میں دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروردگار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی وخواہش کو جلد پورا کر دیتا ہے ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح :
جو عورتیں اپنا نفس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں ان کو حضرت عائشہ اس لئے اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں کہ کسی عورت کا اپنے نفس کو کسی غیر مرد کو ہبہ کر دینا گویا عورت کی عزت و شرف کے منافی ہے اور اس کی حرص و قلت حیاء پر دلالت کرتا ہے اگرچہ جو عورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا نفس ہبہ کر دیتی تھیں ان عورتوں کے نقطہ نظر سے اور واقعۃً بھی ان کا یہ ہبہ ان کے لئے باعث عزت ہوتا تھا جسے وہ اپنی خوش قسمتی تصور کرتی تھیں۔
" کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کر سکتی ہے" حضرت عائشہ یہ بات ان عورتوں کے ہبہ کی مخالفت میں کہا کرتی تھیں جس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کسی عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنا نفس کسی غیر مرد کو ہبہ کر دے اور ایک روایت میں حضرت عائشہ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ کیا عورت اپنا نفس ہبہ کرتے ہوئے کوئی شرم و حیاء محسوس نہیں کرتی؟
مذکورہ آیت کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں اپنا ہم بستر بنائیں اور جس کو چاہیں اپنے سے الگ رکھیں یا یہ مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں اپنے نکاح میں باقی رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نکاح سے الگ کر دیں یعنی طلاق دے دیں اور یا یہ مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کی عورتوں میں جس سے چاہیں نکاح کر لیں اور جس سے چاہیں نکاح نہ کریں ۔
اور امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت دراصل اس آیت (لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَا ءُ مِنْ بَعْدُ ) 33۔ الاحزاب : 52) کی ناسخ ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ازواج مطہرات کے علاوہ اور بھی عورتیں مباح رکھی تھیں۔
مشہور مفسر امام بغوی یہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ آیت کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ آیت دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کی باری کے سلسلہ میں نازل ہوئی تھی جس کی تفصیل یہ ہے کہ اپنی بیویوں کے لئے باری مقرر کرنا پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی واجب تھا لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ وجوب آپ کے حق میں ساقط ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اختیار مل گیا کہ اپنی بیویوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باری سے الگ کر دیا ہے اور ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلانا اور ہم بستر ہونا چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا کر سکتے ہیں اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے امت کے دوسرے مردوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت و برتری ظاہر کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے لئے باری مقرر کرنے کے حکم پر عمل نہ کرنا آپ کے لئے مباح کر دیا کہ جس بیوی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش ہو اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی باری کے وعلاوہ بھی اپنا ہم بستر بنا سکتے ہیں اور اگر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کسی بیوی کو اس باری میں بھی اپنے پاس سلانا نہ چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس کی بھی اجازت ہے۔
( ما اریٰ ربک) الخ کے معنی یہ ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس چیز کی خواہش کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروردگار اسے جلد پورا کر دیتا ہے ۔ علامہ نووی کہتے ہیں اس بات سے حضرت عائشہ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ بعض احکام کی پابندی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں نرم کر دیتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر عمل نہ کرنے کی آسانی فرما دیتا ہے اسی لئے مذکورہ بالا معاملہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی مرضی و خواہش کے مطابق عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون خاتون تھیں جنہوں نے اپنا نفس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہبہ کیا تھا؟ چنانچہ بعض علماء کے قول کے مطابق حضرت میمونہ تھیں اور بعضوں نے کہا ہے کہ حضرت ام شریک تھیں بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ حضرت زینب بنت خزیمہ تھیں اور بعض نے کہا ہے کہ خولہ بنت حکیم تھیں لیکن اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک خاتون نہیں تھیں بلکہ وہ کئی عورتیں تھیں ۔ وحدیث جابر (اتقوا اللہ فی النساء ذکر فی قصۃ حضۃ الوداع) ۔ اور حضرت جابر کی حدیث (اتقو اللہ فی النساء) الخ حجۃ الوداع کے بیان میں نقل کی جا چکی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں