مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 451

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایلاء کا واقعہ

راوی:

وعن جابر قال : دخل أبو بكر رضي الله عنه يستأذن على رسول الله صلى الله عليه و سلم فوجد الناس جلوسا ببابه لم يؤذن لأحد منهم قال : فأذن لأبي بكر فدخل ثم أقبل عمر فاستأذن فأذن له فوجد النبي صلى الله عليه و سلم جالسا حوله نسائه واجما ساكتا قال فقلت : لأقولن شيئا أضحك النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله لو رأيت بنت خارجة سألتني النفقة فقمت إليها فوجأت عنقها فضحك رسول الله صلى الله عليه و سلم وقال : " هن حولي كما ترى يسألنني النفقة " . فقام أبو بكر إلى عائشة يجأ عنقها وقام عمر إلى حفصة يجأ عنقها كلاهما يقول : تسألين رسول الله صلى الله عليه و سلم ما ليس عنده ؟ فقلن : والله لا نسأل رسول الله صلى الله عليه و سلم شيئا أبدا ليس عنده ثم اعتزلهن شهرا أو تسعا وعشرين ثم نزلت هذه الآية : ( يا أيها النبي قل لأزواجك )
حتى بلغ ( للمحسنات منكن أجرا عظيما )
قال : فبدأ بعائشة فقال : " يا عائشة إني أريد أن أعرض عليك أمرا أحب أن لا تعجلي فيه حتى تستشيري أبويك " . قالت : وما هو يا رسول الله ؟ فتلا عليها الآية قالت : أفيك يا رسول الله أستشير أبوي ؟ بل أختار الله ورسوله والدار الآخرة وأسألك أن لا تخبر امرأة من نسائك بالذي قلت : قال : " لا تسألني امرأة منهن إلا أخبرتها إن الله لم يبعثني معنتا ولا متعنتا ولكن بعثني معلما ميسرا " . رواه مسلم

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیویوں سے ایک مہینہ کی علیحدگی اختیار کئے ہوئے مکان میں گوشہ نشین تھے تو ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت کے طلب گار ہوئے انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازہ پر لوگ جمع ہیں ۔ اور کسی کو حاضر ہونے کی اجازت نہیں مل رہی مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت مل گئی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چلے گئے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور انہوں نے حاضر ہونے کی اجازت مانگی ان کو بھی اجازت مل گئی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حالت میں پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت غمگین اور خاموش تھے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ صورت حال دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ اس وقت مجھے کوئی ایسی بات کہنی چاہئے ۔ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑیں ، چنانچہ انہوں کہا کہ " یا رسول اللہ! اگر آپ دیکھیں کہ خارجہ کی بیٹی یعنی میری بیوی مجھ سے روٹی پانی کا خرچ معمول سے زیادہ طلب کرے تو میں کھڑا ہو کر اس کی گردن پر مار لگاؤں ۔ حضرت عمر نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے اور پھر فرمایا کہ یہ میری عورتیں جنہیں تم میرے اردگرد بیٹھی دیکھ رہے مجھ سے معمول سے زیادہ خرچ مانگ رہی ہیں یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر کھڑے ہوئے اور اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ کی گردن پر مارنے لگے ، اسی طرح حضرت عمر بھی کھڑے ہوئے اور وہ بھی اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ کی گردن پر مارنے لگے اور پھر ان دونوں یعنی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کیا تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس چیز کا مطالبہ کر رہی ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود نہیں ہے یعنی یہ بات کتنی غیر مناسب ہے کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مالی حالت جانتی ہو اور اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتنے خرچ کا مطالبہ کرتی ہو جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورا کرنے پر قادر نہیں ہیں کیا تمہارا یہ مطالبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پریشانی میں مبتلا کرنے کے مترادف نہیں ہے ان عورتوں نے کہا کہ بے شک ہم نے بے جا مطالبہ کیا تھا جس پر ہم نادم ہیں اور آئندہ کے لئے ہم عہد کرتی ہیں کہ اللہ کی قسم اب ہم کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس چیز کا مطالبہ نہیں کریں گی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہ ہو ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چونکہ علیحدگی کی قسم کھا لی تھی اس لئے اس قسم کو پورا کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مہینہ تک یا انتیس دن تک اپنی بیویوں سے علیحدہ رہے (اس جگہ حدیث کے کسی راوی کو شک ہوا کہ حضرت جابر نے یہاں ایک مہینہ کہا تھا یا انتیس دن کہا تھا ) پھر یہ آیات۔ (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 28 وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا29) 33۔ الاحزاب : 28۔29) ۔ تک نازل ہوئی حضرت جابر کہتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رابطہ قائم کیا کیونکہ تمام ازواج مطہرات میں وہی سب سے زیادہ عقل مند اور افضل تھیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ عائشہ میں تمہارے سامنے ایک بات پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم اس کا جواب دینے میں جلدی نہ کرو بلکہ اس کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کر لو ۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! فرمائیے وہ کیا بات ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سامنے مذکورہ بالا آیت پڑھی، حضرت عائشہ نے یہ آیت سن کر کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملہ میں اپنے والدین سے مشورہ لوں یعنی مشورہ تو اس معاملہ میں کیا جاتا ہے جس میں کوئی تردد ہو جب کہ اس معاملہ میں مجھے کوئی تردد نہیں ہے ۔ بلکہ میں اللہ اور اللہ کے رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کر لیا یعنی میں اس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی وخواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہوں کہ اسی میں میرے لئے دنیا کی بھی بھلائی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی ہے مگر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو کچھ عرض کیا ہے اس کا ذکر اپنی کسی اور بیوی سے نہ کریں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ بات ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی بیوی مجھ سے یہ پوچھے گی تو میں اس کے سامنے ضرور ذکر کروں گا ، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ میں کسی کو رنج پہنچاؤں یا کسی کو خواہ مخواہ تکلیف میں مبتلا کروں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں مخلوق اللہ کو دین کے احکام سکھاؤں اور آسانی (یعنی دینی دنیوی راحت) سے ہمکنار کروں (مسلم)

تشریح :
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حال میں پایا الخ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پردہ واجب ہونے سے پہلے کا ہے کیونکہ اگر پردہ واجب ہو چکا ہوتا تو نہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرح زنانہ خانہ میں عورتوں کے سامنے جاتے اور نہ عورتیں ان کے سامنے ہوتیں۔
" جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑیں" اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ میں کوئی دلچسپ بات کہہ دوں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غم و ملال زائل ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہو جائیں اس سے معلوم ہوا کہ یہ مستحب ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست و عزیز کو غمگین دیکھے تو وہ اس کے سامنے کوئی بات ذکر کرے جس سے وہ ہنس پڑے اور خوش ہو جائے اور خود بھی اس بات میں شریک ہو کر اپنا رنج و غم بھول جائے چنانچہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو غمگین دیکھتے تو اس کو خوش طبعی اور ہنسی مذاق کے ذریعہ خوش کر دیتے تھے ۔
حدیث میں جس آیت کا ذکر کیا گیا ہے وہ پوری یوں ہے
ا یت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 28 وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا 29 ) 33۔ الاحزاب : 29-28)۔
اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ (میں نے تو فقر کو اختیار کیا ہے ) اگر تم میرے فقر پر راضی نہیں ہو بلکہ دنیا کی آرام دہ زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی خواستگار ہو تو مجھے بتا دو اور آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کر دوں (یعنی ہمیشہ کے لئے تم سے علیحدگی اختیار کر لوں ) اور اگر تم میرے فقر پر راضی ہو اور یہ چاہتی ہو کہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا مندی حاصل ہو اور جنت تمہارا ٹھکانا بنے تو سن لو کہ تم میں جو نیکو کاری کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے (یعنی تمہاری اس مشقت کے عوض جو تمہیں میری فقروفاقہ کی زندگی کی رفیق بننے میں اٹھانی پڑے گی اللہ تعالیٰ تمہیں بے اندازہ اجر و ثواب عطا کرے گا ۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رابطہ قائم کیا اور ان کے سامنے اس آسمانی ہدایت کو رکھنے سے پہلے ان پر واضح کر دیا کہ میں تمہارے سامنے جو ہدایت و ضابطہ رکھنے والا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے والدین سے مشورہ کا حکم اس لئے دیا کہ حضرت عائشہ اگرچہ سب سے زیادہ سمجھدار اور عقل مند تھیں مگر بہرحال صغیر السن تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خوف تھا کہ کہیں عائشہ کم عمری کے جذبات میں نہ بہہ جائیں اور وہ دنیا کی عیش و عشرت کی خاطر مجھے چھوڑ کر آخرت کی ابدی سعادتوں سے منہ نہ موڑ لیں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس سے صرف عائشہ ہی کو نقصان اور تباہی سے دو چار ہونا نہیں پڑے گا، بلکہ ان کے والدین کو بھی سخت اذیت اور تکلیف پہنچے گی لیکن اگر اس معاملہ میں اپنے والدین سے مشورہ کریں تو وہ انہیں وہی صلاح دیں گے جو ان کی دنیا اور ان کے دین کی بھلائی اور بہتری کے مطابق ہو گی ۔ مگر یہ حجرت عائشہ کی فطری سعادت کی بات تھی کہ انہوں نے اپنے والدین کے مشورہ کے بغیر اپنا یہ فیصلہ سنا دیا کہ میں دنیا کی آرام دہ زندگی پر آخرت کی ابدی سعادتوں کو ترجیح دیتی ہوں اور اللہ اور اس کے رسول کی مرضی و منشا ہی کو اختیار کرتی ہوں ۔
حضرت عائشہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ جو درخواست کی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کچھ جواب دیا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کسی اور بیوی سے ذکر نہ کریں تو ان کا یہ خیال تھا کہ شاید اس موقعہ پر کوئی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فقر پر راضی نہ ہو کہ دنیا کی آرام دہ زندگی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علیحدہ ہو جائے اس لئے انہوں نے سوچا کہ اگر کسی بیوی کو میرے اس ایمان و یقین سے بھرپور فیصلہ کا علم ہوا تو شاید اسے بھی راہنمائی مل جائے اور وہ بھی ایسا ہی فیصلہ کرے لیکن اگر میرے اس فیصلہ سے لاعلمی رہے گی تو بہت ممکن ہے کہ کوئی بیوی دنیا کے عیش و آرام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پر مشقت رفاقت پر ترجیح دے اس لئے اچھا ہی ہوگا اگر کوئی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح سے نکل جائے گویا حضرت عائشہ کی اس خواہش کا محرک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی وہ بے پناہ محبت تھی جس میں وہ کسی دوسری عورت کو شریک دیکھنا گوارا نہیں کرتی تھیں ۔ لیکن بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں تمام بیویوں کی بھلائی و برائی یکساں حیثیت رکھتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ ایک بیوی تو آخرت کی سعادتوں سے نوازی جائے اور دوسری بیوی دنیا کو اختیار کر کے تباہی کے راستہ پر لگ جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ کی اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ان پر واضح کر دیا، کہ مجھ سے جو بھی بیوی پوچھے گی میں اس کو بتا دوں گا کیونکہ اس کی بھلائی اسی میں پوشیدہ ہے اگر میں کسی کو نہ بتاؤں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے اس تئیں شفقت کا رویہ نہیں اپنایا اور اس کو وہ راستہ نہیں دکھایا جو اس کی راحت، اس کی بھلائی اور اس کی اخروی فلاح کے لئے ضروری ہے حالانکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث نہیں کیا ہے کہ میں لوگوں کے حق میں بدخواہی کروں یا کسی کو تکلیف و مصیبت اور رنج و غم میں مبتلا کروں اس دنیا میں اس لئے آیا ہوں کہ کائنات انسانی کے ہر فرد کو دنیا و آخرت کی بھلائی کی تعلیم دوں اور ہر انسان کو اس کے دینی دنیاوی معاملات میں آسانی و سہولت کی راہ دکھاؤں ۔

یہ حدیث شیئر کریں