ایلاء کا مطلب
راوی:
وعن أنس قال : آلى رسول الله من نسائه شهرا وكانت انفكت رجله فأقام في مشربة تسعا وعشرين ليلة ثم نزل فقالوا : يا رسول الله آليت شهرا فقال : " إن الشهر يكون تسعا وعشرين " . رواه البخاري
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایک مہینہ کا ایلاء کیا اور اسی زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتیس راتوں تک بالاخانہ ہی پر رہے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا اور مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے پھر آپ انتیس دن کے بعد کیوں اتر آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے ۔ (بخاری)
تشریح :
" ایلاء" کے لغوی معنی ہیں " قسم کھانا " اور اصطلاح شریعت میں ایلاء اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس بات کی قسم کھائے کہ میں چار مہینہ یا اس سے زیادہ تک اپنی بیوی کے پاس نہیں جاؤں گا یعنی اس سے جماع نہیں کروں گا اگر قسم پوری ہو جائے یعنی وہ شخص اپنی قسم کے مطابق چار مہینہ تک یا اس سے بھی زائد اس مدت تک جو اس نے متعین کی ہو، اپنی بیوی کے پاس نہ جائے تو طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے اور اگر وہ قسم پوری نہ کرے یعنی اس مدت کے پوری ہونے سے پہلے بیوی کے پاس چلا جائے تو ایلاء ساقط ہو جاتا ہے اور اس پر قسم پوری نہ کرنے کا کفارہ واجب ہو جاتا ہے یا جزا لازم ہو جاتی ہے اور اگر کسی شخص کے نکاح میں کسی کی لونڈی ہو یعنی اس کی بیوی آزاد عورت نہ ہو بلکہ کسی کی لونڈی ہو اور وہ اس سے ایلاء کرے تو اس کی کم سے کم مدت بجائے چار مہینہ کے دو مہینہ ہو گی اور اگر کسی شخص نے آزاد عورت کے حق میں چار مہینہ سے کم اور لونڈی کے حق میں دو مہینہ سے کم مدت کے لئے قسم کھائی تو یہ ایلاء شرعی نہیں کہلائے گا چنانچہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جس ایلاء کی نسبت کی گئی ہے وہ شرعی ایلاء نہیں ہے ۔ بلکہ ایلاء لغوی مراد ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ قسم کھائی تھی کہ میں اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا جس کا سبب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ زیادہ نفقہ کا مطالبہ کیا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت ناگواری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کے ساتھ یہ عہد کیا کہ میں ان بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا انہیں دنوں میں یہ حادثہ پیش آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پائے مبارک میں چوٹ آگئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مہینہ بالا خانہ پر ہی رہے نیچے نہیں آئے مگر وہ مہینہ غالباً انتیس دن کا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتیس دن پر اکتفا کیا اور نیچے تشریف لے آئے ۔