سفر میں ساتھ لے جانے کے لئے کسی بیوی کا انتخاب قرعہ کے ذریعہ کیا جائے
راوی:
وعن أبي قلابة عن أنس قال : من السنة إذا تزوج الرجل البكر على الثيب أقام عندها سبعا وقسم إذا تزوج الثيب أقام عندها ثلاثا ثم قسم . قال أبو قلابة : ولو شئت لقلت : إن أنسا رفعه إلى النبي صلى الله عليه و سلم
اور حضرت ابوقلابہ تابعی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا یہ مسنون ہے کہ جب کوئی شخص ثیبہ کی موجودگی میں کسی باکرہ سے نکاح کرے تو سات رات تک اس کے پاس رہے اور پھر اس میں اور پرانی بیویوں کے درمیان باری مقرر کر دے اور کسی ثیب یعنی کسی بیوہ یا مطلقہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین رات رہے اور پھر باری مقرر کر دے ۔ حضرت ابوقلابہ کہتے ہیں کہ اگر میں چاہتا تو یہ کہتا کہ حضرت انس نے یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے (بخاری ومسلم)
تشریح :
حضرت امام شافعی نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی شخص کے نکاح میں کئی عورتیں ہوں یا ایک عورت ہو اور پھر وہ ایک عورت سے نکاح کرے تو اگر وہ عورت باکرہ (کنواری) ہو تو اس کے پاس سات رات تک رہے اور اگر وہ ثیبہ (یعنی بیوہ یا مطلقہ ہو) تو اس کے پاس تین رات تک رہے اور پھر نئی اور پرانی بیویوں کے درمیان باری مقرر کر دے کہ ہر ایک کے پاس برابر برابر ایک ایک رات جایا کرے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس سلسلہ میں باکرہ اور ثیب یا نئی اور پرانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ باری کے اعتبار سے سب برابر ہیں انہوں نے ان دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے جو اس باب کی دوسری فصل میں آئیں گی اور جن میں اس قسم کا فرق و امتیاز بیان نہیں کیا گیا ہے، امام اعظم کے نزدیک اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی ایک یا ایک سے زائد بیویوں کی موجودگی میں کسی باکرہ سے نکاح کرے تو اس کے پاس سات رات تک رہے اور پھر پہلی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے پاس سات سات رات تک رہے اور اگر ثیبہ کے ساتھ نکاح کرے تو اس کے پاس تین رات تک رہے اور پھر پہلی بیویوں سے بھی ہر ایک کے پاس تین تین رات تک رہے ۔
روایت کے آخر میں ابوقلابہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں چاہتا تو اس حدیث کو مرفوع کہتا یعنی یہ کہتا کہ اس حدیث کو حضرت انس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کیونکہ صحابہ کا یہ کہنا کہ یہ مسنون ہے مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے۔