کوئی اپنی باری اپنی کسی سوکن کودے سکتی ہے
راوی:
وعن عائشة أن سودة لما كبرت قالت : يا رسول الله قد جعلت يومي منك لعائشة فكان رسول الله صلى الله عليه و سلم يقسم لعائشة يومين يومها ويوم سودة
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ حضرت سودہ کی عمر جب زیادہ ہو گئی تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں نے اپنی باری کا دن جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے مقرر کیا تھا عائشہ کو دیدیا ۔ چنانچہ اس کے بعد آپ حضرت عائشہ کے ہاں دو دن رہنے لگے ایک دن تو ان کی باری میں اور ایک دن حضرت سودہ کی باری میں (بخاری ومسلم)
تشریح :
حضرت سودہ کے والد کا نام زمعہ اور والدہ کا نام سموس تھا پہلے ان کی شادی حضرت سکران کے ساتھ ہوئی تھی یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی ایام میں اسلام لے آئے تھے اور ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے جب ان کے خاوند حضرت سکران کا انتقال ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں ان سے نکاح کیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ان کے نکاح کے بعد ہوا ۔ حضرت عمر یا حضرت معاویہ کے زمانہ میں ان کا انتقال ہوا اور مدینہ منورہ میں مدفون ہوئیں۔
فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کی کوئی بیوی اپنی باری اپنی کسی سوکن کو دے تو جائز ہے بشرطیکہ اس میں شوہر کی طرف سے کسی لالچ یا جبر کا دخل نہ ہو نیز اپنی باری اپنی کسی سوکن کو دینے والی عورت کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ جب چاہے اپنی پیش کش کو واپس لے لے۔