مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ ولیمہ کا بیان ۔ حدیث 422

دنیاوی زیب وزینت کی چیزوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتناب

راوی:

وعن سفينة : أن رجلا ضاف علي بن أبي طالب فصنع له طعاما فقالت فاطمة : لو دعونا رسول الله صلى الله عليه و سلم فأكل معنا فدعوه فجاء فوضع يديه على عضادتي الباب فرأى القرام قد ضرب في ناحية البيت فرجع . قالت فاطمة : فتبعته فقلت : يا رسول الله ما ردك ؟ قال : " إنه ليس لي أو لنبي أن يدخل بيتا مزوقا " . رواه أحمد وابن ماجه

اور حضرت سفینہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی بن ابی طالب کے ہاں ایک مہمان آیا تو حضرت علی نے اس کے لئے کھانا تیار کرایا حضرت فاطمہ نے کہا کہ اگر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مدعو کر لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ کھانا کھا لیں تو بڑا اچھا ہو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مکان میں داخل ہونے کے لئے جیسے ہی دروازے کے دونوں بازوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس پردہ پر پڑ گئی جو گھر کے ایک کونے پر پڑا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پردہ کو دیکھتے ہی واپس ہو گئے حضرت فاطمہ کہتی ہیں کہ میں بھی آپ کے پیچھے گئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ واپس کیوں ہو گئے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو یا کسی بھی نبی کو زینت والے گھر میں داخل ہونا مناسب نہیں ہے ( احمد ابن ماجہ)

تشریح :
قرام باریک اور منقش پردہ کو کہتے ہیں بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کے گھر کے گوشہ میں جو پردہ پڑا ہوا تھا وہ منقش نہیں تھا لیکن اس پردہ سے دیوار کو اس طرح ڈھکا گیا تھا جیسے دولہا دلہن کے چھپر کٹ کو پردوں سے سجاتے ہیں اور ڈھکتے ہیں اور یہ چونکہ دنیا داروں اور اپنی و جاہت و مالداری کا بے جا اظہار کرنیوالوں کا طریقہ ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پردہ کو دیکھتے ہی واپس ہوگئے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا یہ تنبیہ فرمائی کہ دیواروں کو اس طرح پردوں سے سجانا اور ڈھکنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ دنیا کی بیجازیب و زینت ہے جو آخرت کے لئے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے

یہ حدیث شیئر کریں