ولیمہ کی دعوت قبول کرنا چاہئے
راوی:
وعن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إذا دعي أحدكم إلى الوليمة فليأتها " . متفق عليه . وفي رواية لمسلم : فليجب عرسا كان أو نحوه
(2/230)
3217 – [ 8 ] ( صحيح )
وعن جابر : قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا دعي أحدكم إلى طعام فليجب وإن شاء طعم وإن شاء ترك " . رواه مسلم
اور حضرت عبداللہ بن عمرو راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو شادی کے کھانے پر بلایا جائے تو اسے جانا چاہئے اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ دعوت قبول کرنی چاہئے خواہ وہ ولیمہ کی دعوت ہو یا اسی قسم کی کوئی اور دعوت ( بخاری ومسلم)
تشریح :
یا اسی قسم کی کوئی اور دعوت سے ختنہ و عقیقہ وغیرہ کی دعوت مراد ہے اس سے معلوم ہوا کہ ان روایتوں میں ولیمہ سے مراد صرف وہی کھانا ہے جو شادی بیاہ کے موقع پر کھلایا جائے ۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ شادی بیاہ کے کھانے کی دعوت قبول کرنا واجب ہے اگر کوئی شخص بلا کسی عذر کے دعوت قبول نہ کرے تو وہ گنہگار ہوتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
جس شخص نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کی۔
اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ قبول کرنے سے مراد دعوت میں جانا یعنی اگر کسی شخص کو شادی میں بلایا جائے تو اس کے لئے اس دعوت میں جانا بعض علماء کے نزدیک واجب ہے اور بعض علماء کے نزدیک مستحب ہے اب رہی یہ بات کہ کھانے میں شریک ہونے کی تو اس کے بارے میں متفقہ طور پر مسئلہ یہ ہے کہ اگر روزے سے نہ ہو تو کھانے میں شریک ہونا مستحب ہے شادی کے کھانے کی دعوت کے علاوہ دوسری دعوتوں کا قبول کرنا مستحب ہے۔
طیبی اور ابن ملک نے یہ بھی لکھا ہے کہ دعوت قبول کرنے کا وجوب یا استحباب بعض صورتوں میں ساقط ہو جاتا ہے یہ شبہ ہونا کہ دعوت میں جو کھانا کھلایا جائے گا وہ حلال مال کا نہیں ہو گا یا اس دعوت میں مالداروں کی تخصیص ہو یا اس دعوت میں کوئی ایسا شخص شریک ہو جس سے یا تو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا وہ اس قابل نہ ہو کہ اس کے ساتھ کہیں بیٹھا جائے ان صورتوں میں اگر کوئی شخص دعوت قبول نہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے اسی طرح اگر کسی شخص کو دعوت میں محض اس لئے بلایا جائے کہ اس کی خوشنودی مزاج حاصل ہو جائے اور اس سے کوئی نقصان نہ پہنچے یا اس کی ذات وجاہ سے کوئی دنیاوی غرض پوری ہوئے تو ایسی دعوت کو قبول نہ کرنا ہی اولی ہے یا ایسے ہی اگر کچھ لوگ کسی شخص کو اس مقصد کے لئے دعوت میں بلائیں کہ وہ ان لوگوں کے باطل ارادوں یا غیرشرعی کاموں میں مدد کرے یا کسی دعوت میں ممنوع چیزیں جیسے شراب وغیرہ موجود ہو یا وہاں ناچ گانے یا غیر شرعی تفرحیات کی چیزیں ہوں یا جس جگہ دعوت ہو وہاں حریر وغیرہ کا فرش بچھا ہو تو ایسی دعوت میں شریک نہ ہونا چاہئے۔ یہ بات مد نظر رہنی چاہئے کہ آجکل کی مجالس مذکورہ بالا چیزوں سے خالی نہیں ہوتیں اگر سب چیزیں نہیں ہوتیں تو ان میں بعض چیزیں اکثر مجلسوں میں پائی جاتی ہیں اس لئے صوفیاء کا قول ہے کہ عزلت گوشہ نشینی) حلال ہو گئی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ آجکل گوشہ نشینی واجب ہو گی ہے لہذا جو شخص احتیاط کے پیش نظر گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہے اور کسی بھی مجلس یا دعوت میں شریک ہونا مناسب نہ سمجھتا ہو تو اس کے لئے گوشہ نشینی ہی بہتر ہے۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو شادی بیاہ اسی رسم کی کسی اور تقریب کے) کھانے پر بلایا جائے تو اسے چاہئے کہ وہ دعوت قبول کر لے یعنی دعوت میں چلا جائے پھر وہاں جا کر اس کی مرضی پر موقوف ہو گا کہ چاہے تو کھائے چاہے تو نہ کھائے (مسلم)
تشریح :
اس حدیث سے بھی یہ معلوم ہوا کہ دعوت قبول کرنے کا مطلب داعی کے یہاں جانا ہے اور یہ واجب یا سنت ہے ہاں دعوت کے کھانے میں شریک ہونا سنت ہے بشرطیکہ روزہ سے نہ ہو ۔
ابن ملک فرماتے ہیں کہ ارشاد گرامی میں دعوت کو قبول کا جو حکم دیا گیا ہے وہ بطریق وجوب ہے لیکن اس کا تعلق اس شخص سے ہے جس کو کوئی عذر لاحق نہ ہو اگر کوئی شخص معذور ہو مثلا دعوت کی جگہ اتنی دور ہے کہ وہاں جانا تکلیف و مشقت برداشت کرنے کا مرادف ہے تو اس صورت میں اس دعوت کو قبول نہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔