عورت کی آزادی کو اس کا مہرقراردیا جاسکتا ہے
راوی:
وعنه قال : إن رسول الله صلى الله عليه أعتق صفية وتزوجها وجعل عتقها صداقها وأولم عليها بحيس . متفق عليه
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ کو پہلے آزاد کیا اور پھر ان سے نکاح کر لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آزادی ہی کو ان کامہر قرار دیا اور ان کے نکاح میں حیس کا ولیمہ کیا (بخاری مسلم)
تشریح :
حضرت صفیہ حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں جو خیبر میں آباد قبیلہ بنوقریظہ و بنو نضیر کے سردار تھے جب خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح عطا کی تو صفیہ بھی ہاتھ لگیں اور بطور لونڈی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آئیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزادی کے خلعت سے نوازا اور پھر اپنی زوجیت میں لے کر انہیں دین و دنیا کی سب سے بڑی سعادت سے سرفراز کیا ۔
اس مسئلہ میں اہل علم کے اختلافی اقوال ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرے اور اس کی آذادی ہی کو اس کا مہر قرار دے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ صحابہ کی ایک جماعت اور بعض علماء اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے پیش نظر اس کے جواز کے قائل ہیں جب کہ صحابہ اور علماء کی ایک جماعت نے اسے جائز نہیں کہا ہے اور حنفیہ کا بھی یہی مسلک ہے ان کی طرف سے اس حدیث کی یہ تاویل کی جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حضرت صفیہ کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا جانا ایک استثنائی صورت ہے جو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ مختص ہے لہذا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے تھا اور کسی کو جائز نہیں ہے ۔
شرح ہدایہ میں لکھا ہے اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو آزاد کرے اور اس کی آزادی کو مہر قرار دے بایں طور کہ اس سے یہ کہے کہ میں نے تجھ کو اس شرط پر آزاد کیا کہ تو مجھ سے آزادی کے عوض نکاح کر لے اور پھر اس لونڈی نے اسے قبول کر لیا تو یہ آزاد کرنا صحیح ہو جائے گا یعنی وہ آزاد ہو جائیگی البتہ نکاح کے معاملے میں وہ خود مختار ہو گی یہاں تک کہ اگر اس نے اس شخص سے نکاح کر لیا تو اس کے لئے اس کا مہر مثل واجب ہوگا۔
حیس ایک کھانے کا نام ہے جو حلوے کی قسم کا ہوتا ہے اور کھجور گھی اور اقط سے بنتا ہے اقط کہ جس کا دوسرا نام قروط ہے پنیر کی طرح ہوتا ہے اور دہی سے بنایا جاتا ہے ۔