مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ خیار کا بیان ۔ حدیث 41

خیار مجلس کا مسئلہ

راوی:

عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا إلا بيع الخيار "
وفي رواية لمسلم : " إذا تبايع المتبايعان فكل واحد منهما بالخيار من بيعه ما لم يتفرقا أو يكون بيعهما عن خيار فإذا كان بيعهما عن خيار فقد وجب "
وفي رواية للترمذي : " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو يختارا " . وفي المتفق عليه : " أو يقول أحدهما لصاحبه : اختر " بدل " أو يختارا "

حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیچنے والا خریدنے والا دونوں میں سے ہر ایک اپنے دوسرے صاحب معاملہ پر اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے تو وہ خرید وفروخت کے معاملے کو باقی رکھے اور چاہے تو ختم کر دے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یعنی جس مجلس میں وہ معاملہ طے پایا ہوگا جب وہ ختم ہو جائے گی بایں طور کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں رہے گا ہاں بیع خیار اس سے مستثنی ہے یعنی بیع میں خریدار نے اس اختیار کی شرط طے کر لی ہو گی کہ اگر میں چاہوں تو اس خریدی ہوئی چیز کو رکھوں گا اور اگر نہ چاہوں گا تو واپس کر دوں گا اس بیع میں ایک دوسرے سے جدا ہونے کے بعد بھی اختیار باقی رہتا ہے ( بخاری مسلم)
اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب بیچنے والا اور خریدنے والا خرید وفروخت کا کوئی معاملہ کریں تو ان میں سے ہر ایک کو معاملے کو باقی رکھنے یا فسخ کر دینے کا اختیار حاصل ہوگا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یا یہ کہ ان کی خرید وفروخت کا معاملہ بشرط خیار ہو چنانچہ اگر وہ خیار شرط کے ساتھ کوئی تجارتی معاملہ کریں گے تو اس صورت میں (جدائی کے بعد بھی) اختیار کا حق حاصل رہے گا ۔
ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں انہیں اختیار حاصل ہے الاّ یہ کہ وہ اپنے تجارتی معاملے میں خیار کی شرط طے کریں ( یعنی اگر وہ اپنا تجارتی معاملہ مذکورہ بالا خیار شرط کے ساتھ طے کریں گے تو انہیں جدائی کے بعد بھی اختیار حاصل رہے گا۔ لیکن بخاری ومسلم کی ایک روایت میں ترمذی کی اس روایت کے آخری الفاظ (اویختار (الا یہ کہ وہ خیار کی شرط طے کریں) کی بجائے یہ الفاظ ہیں کہ الاّ یہ کہ ان دونوں میں سے ایک اپنے دوسرے صاحب معاملہ سے یہ کہہ دے کہ اختیار کی شرط طے کرلو ( اور وہ دوسرا کہہ دے کہ مجھے یہ منظور ہے)

تشریح :
اس حدیث سے بظاہر خیار مجلس کا جواز ثابت ہوتا ہے لیکن جو حضرات خیار مجلس کے قائل نہیں ہیں جیسے اما ابوحنیفہ وہ یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں ایک دوسرے سے جدا ہونے کا مطلب مجلس کا ختم ہو جانا نہیں ہے بلکہ جدا ہونے سے مراد دونوں کی اس تجارتی معاملے کی گفتگو کا پایہ تکمیل کو پہنچ کر منقطع ہو جانا ہے یعنی جب تک کہ وہ دونوں اس معاملے سے متعلق گفتگو کر رہے ہوں اور ایجاب وقبول پورا نہیں ہوا ہو اس وقت تک ان میں سے ہر ایک کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ چاہے تو زیر گفتگو معاملہ کو فسخ کر دے چاہے اسے باقی رکھے لیکن جب ایجاب وقبول پورا ہو جائے گا یعنی بیچنے والا یہ کہہ دے کہ میں نے یہ چیز تمہیں فروخت کر دی اور خریدنے والا یہ کہہ دے کہ میں نے یہ چیز خرید لی تو اب اس کے بعد ان میں سے کسی کو بھی اس معاملے کو فسخ کرنے کا ختیار نہیں رہے گا ان حضرات نے جدا ہونے کے یہ معنی مراد لینے کے سلسلے میں اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے
ا یت (وَاِنْ يَّتَفَرَّقَا يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِه ) 4۔ النساء : 130)
اگر وہ دونوں جدا ہو جائیں گے تو اللہ اپنے فضل سے ان میں سے ہر ایک کو بے پرواہ کر دے گا
چنانچہ اس آیت میں جدا ہونے کا مطلب مجلس سے جدا ہونا نہیں ہے بلکہ خاوند وبیوی کے درمیان طلاق کے ذریعے جدائی مراد ہے۔

اور حضرت حکیم ابن حزام کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیچنے والا اور خریدنے ولا دونوں کو اپنے تجارتی معاملہ کو باقی رکھنے یا فسخ کر دینے کا اختیار حاصل رہتا ہے لیکن یہ اختیار اس وقت تک حاصل رہتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں اور یاد رکھو جب بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں ( فروخت کی جانیوالی چیز اور اس کی تعریف میں سچ بولتے ہیں اور اس چیز وقیمت میں جو عیب ونقصان ہوتا ہے اس کو ظاہر کر دیتے ہیں تا کہ کسی دھوکہ اور فریب کا دخل نہ رہے تو ان کے تجارتی معاملے میں برکت عطاء کی جاتی ہے اور جب وہ عیب چھپاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں تو ان کی خرید وفروخت میں برکت ختم کر دی جاتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں