مہر میں کچھ حصلہ علی الفور دیدینا بہتر ہے
راوی:
وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " من أعطى في صداق امرأته ملء كفيه سويقا أو تمرا فقد استحل " . رواه أبو داود
(2/227)
3206 – [ 5 ] ( لم تتم دراسته )
وعن عامر بن ربيعة : أن امرأة من بني فزارة تزوجت على نعلين فقال لها رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أرضيت من نفسك ومالك بنعلين ؟ " قالت : نعم . فأجازه . رواه الترمذي
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنی بیوی کے مہر میں سے کچھ حصہ بطور مہر معجل دیدیا مثلا دونوں ہاتھ بھر کر ستو یا کھجوریں دیدیں تو اس نے اس عورت کو اپنے لئے حلال کر لیا ہے ( ابوداؤد)
اور حضرت عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کی ایک عورت نے ایک جوڑی جوتی پر ایک شخص سے نکاح کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کیا تم اپنی مالداری کے باوجود اپنے آپ کو ایک جوڑا جوتی کے بدلے حوالے کر دینے پر راضی ہو گئیں یعنی اس کے باوجود کہ تم خود مالدار اور باحیثیت خاتون ہو کیا صرف ایک جوڑا جوتی کے بدلے اپنے آپ کو حوالے کر دینے پر راضی ہو ( اس عورت نے کہا کہ ہاں میں راضی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب سن کر اس کو جائز رکھا (ترمذی)
تشریح :
رفع تعارض کے پیش نظر اس حدیث کو بھی مہر معجل پر محمول کیا جائے گا لیکن اس کی یہ توضیح زیادہ مناسب ہے کہ جب اس عورت نے ایک جوڑا جوتی کے عوض نکاح کیا تو اس کا نکاح صحیح ہو گیا اور اسے اپنے مہر مثل کے مطالبہ کا حق حاصل ہو گیا جب وہ ایک جوڑا جوتی پر راضی ہو گئی تو گویا وہ اپنے مہر مثل میں سے ایک جوڑا جوتی سے زیادہ کے حق کے دستبردار ہو گئی لہذا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز رکھا اور چونکہ اس صورت میں اس کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے یہ حدیث حضرت امام شافعی وغیرہ کے مسلک کی دلیل نہیں ہو سکتی اور ویسے بھی یہ حدیث ضعیف ہے۔