مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مباشرت کا بیان ۔ حدیث 399

غیلہ کی ممانعت

راوی:

وعن أسماء بنت يزيد قالت : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " لا تقتلوا أولادكم سرا فإن الغيل يدرك الفارس فيدعثره عن فرسه " . رواه أبو داود

اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم اپنی اولاد کو مخفی طور پر قتل نہ کرو کیونکہ غیل سوار پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے گھوڑے سے گرا دیتا ہے ( ابوداؤد)

تشریح :
اپنی اولاد کو مخفی طور پر قتل نہ کرو، کا مطلب یہ ہے کہ غیلہ کے ذریعہ اولاد کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ حمل کی حالت میں دودھ پلانے یا مدت رضاعت میں جماع کرنے کو غیلہ کہتے ہیں لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ غیلہ کی وجہ سے بچہ کے مزاج میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے قوی ضعیف ہو جاتے ہیں اور اس خرابی و ضعف کا اثر اس کے بالغ ہونے کے بعد تک رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بچہ بڑا ہونے کے بعد جب میدان کارزار میں جاتا ہے تو دشمن کے مقابلہ میں سست اور کمزور پڑ جاتا ہے اور گھوڑے سے گر پڑتا ہے اور یہ چیز اس کے حق میں ایسی ہے جیسا کہ اسے مقابلہ سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا ہو لہذا غیلہ نہ کرو تا کہ غیلہ کی وجہ سے اپنے بچے کے قتل ہو جانے کا باعث نہ بنو ۔
اس موقع پر یہ خلجان پیدا ہو سکتا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہو کہ بچہ پر غیلہ کا اثر پڑتا ہے جبکہ اس سے پہلے گزرنے والی بعض احادیث سے یہ معلوم ہوا تھا کہ غیلہ بچہ پر اثرانداز نہیں ہوتا؟ اس کا جواب طیبی نے یہ دیا ہے کہ گزشتہ احادیث میں بچہ پر غیلہ کے اثرانداز ہونے کی نفی زمانہ جاہلیت کے اس اعتقاد کی تردید کے لئے تھے کہ لوگ غیلہ ہی کو حقیقی مؤثر سمجھتے تھے۔ اور اس حدیث کے ذریعہ غیلہ کے اثرانداز ہونے کا جو اثبات کیا گیا ہے وہ اس بات کے پیش نظر ہے کہ غیلہ فی الجملہ سبب بنتا ہے اور مؤثرحقیقی حق تعالیٰ کی مرضی اور اس کا حکم ہے ۔ یا یوں کہا جائے کہ اس حدیث میں غیلہ کی جو ممانعت بیان کی گئی ہے وہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزشتہ ارشاد (لقد ہممت) الخ ( حدیث نمبر٧) تحریم پر محمول ہے اسی طرح دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد باقی نہیں رہے گا اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے) ان دونوں کی بنیاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ عرب کے لوگ جب غیلہ کرتے ہیں تو ان کے بچے ضعیف و کمزور ہو جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیلہ سے منع کیا مگر جب بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روم و فارس کے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہاں غیلہ کی وجہ سے بچہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیلہ کی ممانعت کو ختم کر دیا چنانچہ حضرت جدامہ کی روایت نمبر ٧ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں