ایام حیض میں اپنی بیوی کے پاس نہ جاؤ اور نہ بیوی کے ساتھ بد فعلی کرو
راوی:
عن ابن عباس قال : أوحي إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم : ( نساوكم حرث لكم فأتوا حرثكم )
الآية : " أقبل وأدبر واتق الدبر والحيضة " . رواه الترمذي وابن ماجه
(2/223)
3192 – [ 10 ] ( صحيح )
وعن خزيمة بن ثابت : أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " إن الله لا يستحيي من الحق لا تأتوا النساء في أدبارهن " . رواه أحمد والترمذي وابن ماجه . والدارمي
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل کی گئی (نِسَا ؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ) 2۔ البقرۃ : 223) ( تماری عورتیں تمہاری کھیتیاں پس آؤ تم اپنی کھیتیوں میں الخ) لہذا تم جس طرح چاہو ان سے مجامعت کرو خواہ آگے سے اگلی جانب میں آؤ یا پیچھے سے اگلی جانب آؤ لیکن مقعد میں دخول کرنے سے اجتناب کرو اور حیض کی حالت میں جماع نہ کرو (ترمذی ابن ماجہ دارمی)
تشریح :
لفظ اقبل (خواہ آگے سے اگلی جانب میں آؤ) اور ادبر ( یا پیچھے سے اگلی جانب میں آؤ) یہ دونوں لفظ آیت کریمہ کے الفاظ (فا تو ا حرثکم) 2۔ البقرۃ : 223) کی تفسیر و بیان میں ہیں، یعنی ان دونوں الفاظ کے ذریعہ یہ وضاحتی تنبیہ کی گئی ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ خواہ آگے کی طرف سے آؤ یا پیچھے کی طرف سے آؤ مگر دخول بہرصورت اگلے حصے یعنی شرمگاہ ہی میں کرو چنانچہ بد فعلی کرنا یعنی مقعد میں دخول کرنا قطعی حرام ہے اسی طرح حیض کی حالت میں اگلے حصہ میں بھی دخول کرنا حرام ہے۔
اور حضرت خزیمہ بن ثابت کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے حیاء نہیں کرتا تم عورتوں کی مقعد میں بدفعلی نہ کرو ( احمد ترمذی ابن ماجہ دارمی)
تشریح :
حیاء اس تغیر کو کہتے ہیں جو عیب لگنے اور برا کہے جانے کے خوف سے انسان میں واقع ہوتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی تغیر کا واقع ہونا محال ہے اس لئے یہاں حیاء سے حقیقی حیاء مراد نہیں ہے بلکہ مجازی حیاء یعنی ترک کرنا مراد ہے جو حیاء کا مقصد ہے اس طرح ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْى ) 2۔ البقرۃ : 26) کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے اور اس کے اظہار کو ترک نہیں کرتا لہذا حدیث میں اس بات کو ما بعد کے مضمون (عورت کے ساتھ بد فعلی کی ممانعت) کی تمہید ومقدمہ کے طور پر ذکر کرنا گویا اس فعل بد کی انتہائی برائی اور اس کے حرام ہونے پر متنبہ کرنا ہے کہ یہ بات اتنی ناپسندیدہ اور مکروہ ہے کہ اس کو زبان پر لانا اور اس کا ذکر کرنا بھی شرم وحیا کے منافی ہے اگرچہ اس کا ذکر کرنا اس سے روکنے ہی کی وجہ سے کیوں نہ ہو لیکن چونکہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے اور شرعی مسئلہ کو بیان کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اس لئے سن لو کہ عورتوں کے ساتھ ان کی مقعد میں بد فعلی کرنا حرام ہے اس لئے اجتناب کرو اس سے معلوم ہوا کہ جب عورتوں کے ساتھ بد فعلی کرنا حرام ہے تو مردوں کے ساتھ یہ فعل بطریقہ اولی حرام ہے۔
طیبی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ یہ فعل بد کرے تو وہ زانی کے حکم میں ہوگا اور اگر اپنی بیوی یا اپنی لونڈی کے ساتھ کرے تو وہ حرام کا مرتکب ہوا لیکن اس کی پاداش میں اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا اور نہ اس پر حد جاری کی جائے گی البتہ اسے کوئی سزا ضرور دی جائے گی۔ اور نووی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کے ساتھ اغلام کرے تو وہ اجنبی کے ساتھ بد فعلی کرنے والے کے حکم میں ہوگا نیز حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس فعل بد پر فاعل اور مفعول یعنی یہ فعل بد کرنیوالا اور کرانیوالا دونوں مستوجب تعزیر ہوتے ہیں کہ ان دونوں کو ان کے حال کے مناسب کوئی سزا دی جائے گی ہاں اگر مفعول یعنی جس کے ساتھ یہ بد فعلی کی گئی ہے) چھوٹا ہو یا دیوانہ ہو یا اس کے ساتھ زبردستی یہ فعل بد کیا گیا ہو تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔