اپنی بیوی کی پوشیدہ باتوں کو افشاء کرنے والے کے بارہ میں وعید
راوی:
وعن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :
إن أعظم الأمانة عند الله يوم القيامة " وفي رواية : إن من أشر الناس عند الله منزلة يوم القيامة الرجل يفضي إلى امرأته وتفضي إليه ثم ينشر سرها " . رواه مسلم
اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی امانت ایک روایت میں یوں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک باعتبار مرتبہ کے سب سے برا شخص وہ ہوگا جو اپنی بیوی سے ہم بستر ہو اور اس کی بیوی ہم آغوش ہو اور پھر وہ اس کی پوشیدہ باتیں ظاہر کرتا پھرے ( بخاری ومسلم)
تشریح :
علامہ طیبی (ان اعظم الامانۃ) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت بڑی امانت کہ جس میں خیانت کرنیوالے سے قیامت کے دن سخت باز پرس ہوگی شوہر وبیوی کے درمیان جنسی معاملات اور نجی امور سے متعلق باتیں ہیں یعنی خاوند بیوی کے درمیان جنسی افعال اور راز و نیاز کی باتیں ایک بہت بڑی امانت ہے جس کی حفاظت ہر شوہر کی ذمہ داری ہے جو شوہر اس امانت کی حفاظت نہیں کرے گا بایں طور کہ وہ اپنی بیوی سے ہمبستری کے بعد اس کے راز افشاء کرے گا اس سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی اور اشرف کے قول کے مطابق اس ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی امانت میں خیانت اس شخص کی خیانت ہو گی جو اپنی بیوی سے ہمبستری کرے اور پھر اس کے راز کو افشاء کرے ۔ اور افشاء کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان راز و نیاز کی جو باتیں ہوئی ہوں اور جنسیات سے متعلق جو افعال ہوئے ہوں ان کو لوگوں سے کہتا پھرے جیسا کہ بے حیاء لوگوں کی عادت ہے یا اپنی بیوی کے کسی عیب کو بیان کرتا پھرے اور یا یہ کہ اپنی بیویوں کی ان خوبیوں اور اوصاف کو ذکر کرتا پھرے جن کو چھپانا شرعًا اخلاقًا اور عرفًا واجب ہے۔
ابن ملک کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ خاوند و بیوی میں سے ہر ایک اپنے دوسرے کے افعال و اقوال کا امین ہے لہذا ان میں سے جو بھی اپنے دوسرے کے ان افعال و اقوال کو ظاہر کرے گا جن کو ظاہر کرنا وہ دوسرا ناپسند کرتا ہو تو وہ خیانت کرنیوالا کہلائے گا۔
بہرکیف حدیث کا حاصل یہ ہے کہ خاوند و بیوی کے درمیان جنسی معاملات اور ذاتی امور سے متعلق جو باتیں ہوتی ہیں یا جو افعال ہوتے ہیں ان کو غیروں کے سامنے بیان کرنا یا ایک دوسرے کے عیوب وغیرہ کو ظاہر کرنا اخلاقی نکتہ نظر ہی سے معیوب نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر آخرت میں مؤخذاہ الٰہی کا موجب ہے۔
اس سلسلہ میں ایک سبق آموز واقعہ بیان کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہے ۔ ایک مرتبہ ایک صاحب علم و دانش نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے پوچھا کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کے عیوب کیونکر ذکر کروں (یعنی اگر میں طلاق کی وجہ بیان کروں تو گویا میں اس کے عیوب کو جو طلاق کی وجہ ہیں تمہارے سامنے بیان کرو دوں اور یہ مجھے گوارا نہیں ہے کہ جب تک وہ میری بیوی ہے اس کے عیوب دوسروں کے سامنے آئیں) پھر جب اس نے طلاق دیدی تو پھر کچھ اور لوگوں نے پوچھا کہ تم نے اپنی بیوی کو طلاق کیوں دی؟ اس نے کہا کہ میں ایک اجنبی عورت کے عیوب کیسے ظاہر کروں یعنی اگر میں طلاق کی وجہ بیان کروں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک اجنبی عورت کے عیوب تمہارے سامنے بیان کر دوں اور اسے میں مطلقًا مناسب نہیں سمجھتا)
بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ خاوند و بیوی کے لئے ایک دوسرے کی باتوں کو ظاہر کرنے کی یہ ممانعت اس صورت میں ہے جبکہ اس کا کوئی فائدہ اور مقصد نہ ہو، ہاں اگر اس کا کوئی فائدہ یا اس کی کوئی معقول وجہ ہو تو پھر یہ ممانعت نہیں ہوگی مثلا اگر عورت کا دعوی ہو کہ اس کا خاوند اس کی جنسی خواہش کی تسکین کا اہل نہیں ہے، یا بیوی یہ شکایت کرے کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ بیزاری اور لا پرواہی کا برتاؤ کرتا ہے تو اس صورت میں بیوی کے لئے ان چیزوں کا ذکر کرنا غیر پسندیدہ نہیں ہو گا جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
(لا یحب اللہ الجہر بالسوء من القول الا من ظلم)
(اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی بری بات کو اعلانیہ بیان کیا جائے ہاں اگر کسی پر ظلم کیا گیا ہے تو وہ اسے اعلانیہ بھی بیان کر سکتا ہے)