مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مباشرت کا بیان ۔ حدیث 395

عزل کا مسئلہ

راوی:

وعنه كنا نعزل والقرآن ينزل . متفق عليه . وزاد مسلم : فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه و سلم فلم ينهناوعنه قال : إن رجلا أتى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " إن لي جارية هي خادمتنا وأنا أطوف عليها وأكره أن تحمل فقال : " اعزل عنها إن شئت فإنه سيأتيها ما قدر لها " . فلبث الرجل ثم أتاه فقال : إن الجارية قد حبلت فقال : " قد أخبرتك أنه سيأتيها ما قدر لها " . رواه مسلموعن أبي سعيد الخدري قال : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم غزوة بني المصطلق فأصبنا سبيا من سبي العرب فاشتهينا النساء واشتدت علينا العزبة وأحببنا العزل فأردنا أن نعزل وقلنا : نعزل ورسول الله صلى الله عليه و سلم بين أظهرنا قبل أن نسأله ؟ فسألناه عن ذلك فقال : " ما عليكم ألا تفعلوا ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهي كائنة "
(2/222)

3187 – [ 5 ] ( صحيح )
وعنه قال : سئل رسول الله صلى الله عليه و سلم عن العزل فقال : " ما من كل الماء يكون الولد وإذا أراد الله خلق شيء لم يمنعه شيء " . رواه مسلم
(2/222)

3188 – [ 6 ] ( صحيح )
وعن سعد بن أبي وقاص : أن رجلا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : إني أعزل عن امرأتي . فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لم تفعل ذلك ؟ " فقال الرجل : أشفق على ولدها . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لو كان ذلك ضارا ضر فارس والروم " . رواه مسلم
(2/223)

3189 – [ 7 ] ( صحيح )
وعن جذامة بنت وهب قالت : حضرت رسول الله صلى الله عليه و سلم في أناس وهو يقول : " لقد هممت أن أنهى عن الغيلة فنظرت في الروم وفارس فإذا هم يغيلون أولادهم فلا يضر أولادهم ذلك شيئا " . ثم سألوه عن العزل فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ذلك الوأد الخفي وهي ( وإذا الموؤودة سئلت )
رواه مسلم
3190 – [ 8 ] ( صحيح )

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن کریم نازل ہوتا رہتا تھا یعنی نزول کا سلسلہ جاری تھا مگر اس بارے میں کوئی ممانعت نازل نہیں ہوئی۔ (بخاری ومسلم) اور مسلم نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ ہمارے اس فعل کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع نہیں فرمایا۔

تشریح :
عزل کا مطلب یہ ہے کہ عورت سے اس طرح جماع کیا جاۓ کہ مرد جب منزل ہونے لگے تو وہ اپنا عضو مخصوص عورت کی شرم گاہ سے باہر نکال کر مادہ کا باہر ہی اخراج کر دے ۔ اس طریقہ سے مادہ منویہ چونکہ اندر نہیں پہنچتا اس لئے عورت حاملہ ہونے سے بچ جاتی ہے۔
علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اکثر علماء اس بات کے قائل ہیں کہ عزل جائز ہے اور بعض حضرات جن میں کچھ صحابہ بھی شامل ہیں اس کو ناجائز کہتے ہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ عزل کرنا جائز ہے چنانچہ درمختار میں بھی یہی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی خاص مصلحت یا عذر کی بناء پر عزل کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اپنی لونڈی سے عزل کرنا تو اس کی اجازت کے بغیر بھی جائز ہے جب کہ اپنی آزاد منکوحہ سے اس کی اجازت کے بعد ہی جائز ہوگا اسی طرح اگر کسی دوسرے کی لونڈی اپنے نکاح میں ہو تو اس کے مالک کی اجازت حاصل کرنے کے بعد اس سے عزل کرنا جائز ہو گا ۔ حضرت امام شافعی کے بارے میں سید نے یہ لکھا ہے کہ ان کے نزدیک بھی اپنی آزاد منکوحہ سے اس کی اجازت کے بعد ہی عزل کرنا جائز ہے لیکن لونڈی خواہ اپنی مملوکہ ہو یا منکوحہ ہو اس کی اجازت کے بغیر بھی عزل کرنا جائز ہے ۔ اور امام نووی نے جو شافعی المسلک ہیں) یہ لکھا ہے کہ ہمارے یعنی شوافع کے نزدیک عزل کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ انقطاع نسل کا سبب ہے۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے پاس لونڈی ہے جو ہماری خدمت کرتی ہے اور میں اس سے جماع بھی کرتا ہوں لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں کہ وہ حاملہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو عزل کر لیا کرو لیکن اس لونڈی کے ذریعہ جو چیز پیدا ہونی مقدر ہو چکی ہے وہ ضرور پیدا ہو گی ۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک وہ شخص نہیں آیا اور پھر جب آیا تو کہنے لگا کہ میری لونڈی حاملہ ہو گئی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ اس کے ذریعہ جو چیز پیدا ہونی مقدر ہو چکی ہے وہ ضرور پیدا ہوگی (مسلم)

تشریح :
علامہ نووی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عزل کرنے کے باوجود اگر حمل ٹھہر جائے تو اس کا نسب ثابت ہو گا اور علامہ ابن ہمام نے اس بارے میں لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے عورت کی اجازت کے بعد یا اس کی اجازت کے بغیر عزل کیا اور اس کے باوجود اس عورت کے حمل ٹھہر گیا تو آیا اس شخص کے لئے اس حمل سے انکار کرنا یعنی یہ کہنا کہ یہ حمل میرا نہیں ہے) جائز ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں تفصیل ہے، چنانچہ علماء کا قول ہے کہ اگر اس شخص نے عزل کرنے کے بعد دخول نہیں کیا تھا یا دخول کیا تھا مگر اس سے پہلے پیشاب نہیں کیا تھا تو پھر اس کے لئے اس حمل سے انکار کرنا جائز نہیں ہو گا کیونکہ اس صورت میں اس بات کا قوی احتمال ہو سکتا ہے کہ اس کے ذکر میں منی کا کوئی قطرہ باقی رہ گیا ہو اور وہ اب دخول کی صورت میں عورت کے رحم میں چلا گیا ہو اسی طرح حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہ مسلک ہے کہ اگر کسی شخص نے مثلا جماع سے فارغ ہونے کے بعد پیشاب کرنے سے پہلے غسل جنابت کیا اور اس کے بعد جب اس نے پیشاب کیا تو منی کا کوئی قطرہ نکل آیا تو اس صورت میں اس پر واجب ہوگا کہ وہ اب پھر غسل کرے۔
اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنی المصطلق کی جنگ میں گئے تو عرب قوم میں سے کچھ لونڈی غلام ہمارے ساتھ آئے، ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور مجرد رہنا ہمارے لئے سخت مشکل ہو گیا اور ان لونڈیوں سے جو ہمارے ہاتھ لگی تھیں ہہم نے عزل کرنا چاہا) تا کہ ان کے حمل نہ ٹھہر جائے) آخر ہم نے عزل کا ارادہ کر لیا مگر پھر ہم نے سوچا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہیں تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ ہم نے آپ سے اس کے بارے میں دریافت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم عزل نہ کرو تو اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے اس لئے کے قیامت تک جو جان پیدا ہو نیوالی ہے وہ تو پیدا ہو کر رہے گی ( بخاری ومسلم)

تشریح :
امام نووی کہتے ہیں کہ سبیا من العرب سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل عرب پر بھی رق جاری ہوتا ہے جب کہ وہ مشرک ہوں (یعنی جس طرح غیرعرب مشرک و کافر جنگ میں پکڑ لئے جانے کے بعد غلام و لونڈی بنائے جا سکتے ہیں اسی طرح اگر وہ مشرک و کافر جن کا تعلق عرب نسل سے ہو کسی جنگ میں بطور قیدی ہاتھ لگیں تو وہ بھی مسلمانوں کے حق میں لونڈی غلام ہو جاتے ہیں کیونکہ یہاں جن لونڈی غلاموں کا ہاتھ لگنا ذکر کیا گیا ہے ان کا تعلق بنی المصطلق سے تھا جو قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ تھی اور قبیلہ خزاعہ والے اہل عرب میں سے تھے چنانچہ حضرت امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے۔
(ما علیکم ان لا تفعلوا) میں حروف " الف" کے زبر کے ساتھ یعنی (ان) بھی صحیح ہے اور الف کے زیر کے ساتھ یعنی ان بھی صحیح ہے اس جملہ کے معنی نووی نے یہ بیان کئے ہیں کہ اگر تم عزل نہ کرو تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ جب یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو پیدا کرنا مقدر کر دیا ہے تو وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گا اس لئے تم عزل کرو یا عزل نہ کرو پیدا ہونوالی جان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا اگر اسے دنیا میں آنا ہے تو تم لاکھ عزل کر لو ضبط ولادت کے لاکھ طریق آزما لو وہ اس دنیا میں آ کر رہے گی اور اگر اس کا پیدا ہونا مقدر نہیں ہے تو پھر اگر عزل نہ کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں حاصل یہ کہ تمہارا عزل کرنا کوئی فائدہ مند چیز نہیں ہے ۔ اس اعتبار سے یہ حدیث عزل کے عدم جواز کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اور بعض علماء کہتے ہیں کہ (ان لا تفعلوا) میں حرف، لا، زائد ہے اس صورت میں اس جملہ کے یہ معنی ہوں گے کہ عزل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اس اعتبار سے یہ حدیث عزل کے جائز ہونے کی دلیل ہو گی۔
اور حضرت ابوسعید خدری راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کرنے کے بارے میں پوچھا گیا (کہ عزل کرنا جائز ہے یا نہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منی کے ہر پانی سے بچہ بنتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو پیدا ہونے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی ( مسلم)

تشریح :
بظاہر اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ سوال اور جواب میں کوئی مطابقت نہیں ہے حالانکہ اگر حدیث کے حقیقی مفہوم پر نظر ہو تو یہ اشکال پیدا ہونے کا کوئی محل ہی نہیں رہ جاتا کیونکہ سوال کا مقصد یہ تھا کہ عزل کرنے کی اجازت مل جائے تا کہ عورت کے ہاں ولادت ہونے کا کوئی خوف نہ رہے ، سوال کے اسی حقیقی مفہوم کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تم لوگ تو یہ سمجھتے ہو کہ مرد کی منی کا عورت کے رحم میں گرنا عورت کے ہاں ولادت ہونے کا سبب ہے اور عزل کر لینا ولادت نہ ہونے کا سبب ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ منی کے ہر پانی سے بچہ نہیں بنتا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مرد کی منی عورت کے رحم تک پہنچ جاتی ہے مگر اس سے بچہ نہیں بنتا اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ عزل کرتے ہیں مگر اس کے باوجود عورت حاملہ ہو جاتی ہے لہذا اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا حاملہ ہونا مرد کے مادہ تولید کے اندر کرنے پر موقوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ پر موقوف ہے، اسی طرح عورت کا حاملہ نہ ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ ہی پر موقوف ہے عزل پر موقوف نہیں ہے ۔ ہاں یہ ثابت ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تولد و تناسل کا ایک نظام مقرر کر دیا ہے کہ مرد کے نطفہ سے بچہ کی تولید ہوتی ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ عزل کرنے کی صورت میں بھی نطفہ کا کوئی حصہ بلا اختیار عورت کے رحم میں چلا جائے اور اس سے بچہ بن جائے بلکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اگر کسی بچہ کا پیدا ہونا تقدیر الٰہی میں ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس پر قدرت حاصل ہے کہ وہ اس بچہ کو بغیر نطفہ کے بھی پیدا کر دے۔
بظاہر یہ احادیث عزل کے جائز نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں لیکن ان کا حقیقی مفہوم ومنشاء اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ عزل کرنا پسندیدہ نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے، اس مسئلہ میں حنفیہ اور دوسرے علماء کا جو فقہی مسلک ہے اس کا بیان حضرت جابر کی روایت کی تشریح میں گزر چکا ہے۔
اور حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنی عورت سے عزل کرتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس شخص نے کہا کہ میں اس کے شیر خوار بچہ کی وجہ سے ڈرتا ہوں کہ کہیں مدت رضاعت میں وہ حاملہ نہ ہو جائے اور اس حالت میں بچہ کو دودھ پلانا نقصان پہنچ جائے گا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ نقصان پہنچاتا تو روم و فارس والوں کو ضرور نقصان پہنچاتا (مسلم)

تشریح :
لوگوں کا خیال یہ تھا کہ مدت رضاعت میں جماع اور پھر حمل ٹھہرنے سے چونکہ عورت کے دودھ میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اس لئے اس دودھ کو پینے سے شیر خوار بچہ کو نقصان پہنچتا ہے اس کے علاوہ ایسی حالت میں عورت کا دودھ بھی کم ہو جاتا ہے اس کا حاصل یہ تھا کہ اسی خوف کی بناء پر اس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کی اجازت چاہی اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا اس کا حاصل یہ تھا کہ اگر مدت رضاعت میں جماع کرنا اور حمل ٹھہر جانا شیرخواربچہ کو نقصان دہ ہوتا تو یہ روم و فارس والوں کو ضرور نقصان پہنچاتا کیونکہ وہ اس کے عادی ہیں اور جب ان کی یہ عادت ان کے لئے نقصان دہ نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ مدت رضاعت میں حمل ٹھہر جانا نقصان دہ نہیں ہے لہذا عزل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور حمل ٹھہر جانے کے خوف کی وجہ سے عزل نہ کرو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد عزل کی کراہت و ناپسندیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
اور حضرت جدامہ بنت وہب کہتی ہیں کہ ایک دن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس وقت لوگوں کی ایک جماعت وہاں موجود تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مخاطب کر کے فرما رہے تھے کہ میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ لوگوں کو غیلہ سے منع کردوں لیکن پھر میں نے دیکھا کہ روم و فارس کے لوگ اپنی اولاد کی موجودگی میں غیلہ کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں ہوتا تو میں نے اس ارادہ کو ترک کر دیا ) پھر لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کرنے کے بارے میں پوچھا کہ اس کا کیا حکم ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عزل کرنا تو پوشیدہ طور پر زندہ گاڑ دینا ہے اور یہ ایک بری عادت ہے جو اس آیت کریمہ (وَاِذَا الْمَوْء دَةُ سُى ِلَتْ) 81۔ التکویر : 8) ( اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی تھی) کے حکم میں داخل ہے۔ (مسلم)

تشریح :
غیلہ کے معنی ہیں حمل کی حالت میں بچہ کو دودھ پلانا اور نہایہ میں لکھا ہے کہ غیلہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرے چنانچہ اہل عرب غیلہ یعنی ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرنے ) احتراز کرتے تھے اور اس کیوجہ ان کا یہ گمان تھا کہ اس صورت میں شیر خوار بچہ کو نقصان پہنچتا ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ ارادہ فرمایا کہ لوگوں کو ایام رضاعت میں اپنی بیوی کے پاس جانے سے منع کر دیں لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ روم و فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت کا ارادہ ترک فرما دیا۔
واد کے معنی ہیں زندہ در گور کرنا، جیتا گاڑ دینا، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب تنگدستی کے خوف اور عار کی وجہ سے اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان والدین سے سخت باز پرس کی جائے گی جو اپنے ہاتھوں اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل کو بھی واد خفی یعنی پوشیدہ زندہ گاڑ دینے سے تعبیر فرمایا ۔ اس طرح یہ حدیث منسوخ ہے یا آپ نے یہ بات محض تہدید و تنبیہ کے طور پر فرمائی ہے یا پھر یہ کہ اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ عزل نہ کرنا ہی اولی اور زیادہ بہتر ہے۔
ان حضرات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک مجلس منعقد تھی ۔ حاضرین میں حضرت علی حضرت زبیر اور حضرت سعد رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسے جلیل القدر صحابہ کے علاوہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق بھی موجود تھے ۔ عزل کے سلسلہ میں مباحثہ ہو رہا تھا صحابہ کی رائے تھی کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ایک صحابی نے یہ کہا کہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ عزل کرنا مودۃ(چھوٹی مؤدۃ ہے یعنی جس طرح اپنی اولاد کو زندہ گاڑ دینا مؤدۃ کبری ہے اسی طرح عزل کرنا مؤدۃ صغری ہے حضرت علی نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس سلسلہ میں حاصل کلام یہ ہے کہ جب تک بچہ میں جان نہ پڑے مؤدۃ کے مفہوم کا اطلاق نہیں ہو گا یعنی اگر جان پڑھ جانے کے بعد اسقاط حمل کرایا جائے یا زندہ پیدا ہونے کے بعد اسے جیتا جاگتا گاڑ دیا جائے تو اس کو مؤدۃ کہا جائے گا ۔ حضرت علی کا یہ جواب سن کر حضرت عمر نے فرمایا علی! اللہ تعالیٰ تمہاری عمر دراز کرے تم نے سچ کہا ہے چنانچہ فقہی مسئلہ یہ ہے کہ جب تک بچہ میں جان نہ پڑے اسقاط حمل جائز ہے اور قرار حمل کے بعد ایک سو بیس دن میں حمل کے اندر جان پڑتی ہے گویا قرار حمل کے بعد ایک سو بیس دن کے اندر اندر تو اسقاط حمل جائز ہے اس کے بعد جائز نہیں ہے۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی عزل کے حرام ہونے پر دلالت نہیں کرتا البتہ اس کے مکروہ ہونے پر ضرور دلالت کرتا ہے بایں معنی کہ عزل کرنا واد حقیقی یعنی واقعۃً زندہ درگور کر دینے کے حکم میں داخل نہیں ہے کیونکہ واد حقیق کا مطلب ہوتا ہے ایک جان کو ہلاک کر دینا جب کہ عزل میں یہ صورت نہیں ہوتی البتہ عزل کرنا واد حقیقی کے مشابہ یقینا ہے اسی واسطے اس کو پوشیدہ زندہ گاڑ دی نافرمایا گیا ہے جو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ عزل کے ذریعہ چونکہ اپنے مادہ تولید نطفہ کو ضائع کیا جاتا ہے اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ مادۃ تولید اللہ تعالیٰ نے بچہ پیدا ہونے کے لئے مہیا کیا ہے اس لئے یہ فعل یعنی عزل کرنا اپنے بچہ کو ہلاک کرنے یا اس کو زندہ درگور کر دینے کے مشابہ ہے۔
علامہ ابن ہمام کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے بارے میں یہ صحیح روایت منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ عزل مؤدۃ صغری ہے ۔ نیز حضرت ابوامامہ کے بارے میں یہ منقول ہے کہ جب ان سے عزل کا حکم پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے کسی مسلمان کو عزل کرتے نہیں دیکھا سنا اس سے معلوم ہوا کہ عزل کرنا پسندیدہ نہیں ہے)
اسی طرح حضرت ابن عمر سے یہ منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق نے بعض لوگوں کو عزل کرنے پر مارا ہے اور حضرت عثمان غنی کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ عزل کرنے سے منع کرتے تھے ۔ ان تمام روایات سے عزل کی ممانعت ثابت ہوتی ہے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے،

یہ حدیث شیئر کریں