مدت رضاعت کے بعد دودھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی
راوی:
وعن عائشة قالت : كان فيما أنزل من القرآن : " عشر رضعات معلومات يحرمن " . ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول الله صلى الله عليه و سلم وهي فيما يقرأ من القرآن . رواه مسلم
(2/218)
3168 – [ 9 ] ( متفق عليه )
وعنها : أن النبي صلى الله عليه و سلم دخل عليها وعندها رجل فكأنه كره ذلك فقالت : إنه أخي فقال : " انظرن من إخوانكن ؟ فإنما الرضاعة من المجاعة "
اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے تو اس وقت ان کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا اسے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گویا ناگواری ہوئی۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ناگواری کو محسوس کر کے عرض کیا کہ یہ میرے دودھ شریک بھائی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھا (یعنی غور کرو اور سوچو) کہ تمہارا بھائی کون ہو سکتا ہے کیونکہ شرعی طور پر رضاعت کا اعتبار بھوک کے وقت ہے ( بخاری ومسلم)
تشریح :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ دودھ پینے کے احکام اسی صورت میں جاری ہوتے ہیں جب کہ دودھ بطور غذا پلایا جائے اور اس سے بھوک دور کی گئی ہو ۔ چنانچہ یہ بات خورد سالی یعنی ایام شیرخوارگی ہی میں ہوتی ہے اور شیرخوارگی کی مدت اکثر علماء کے نزدیک دو سال اور امام اعظم ابوحنیفہ کے قول کے مطابق ڈھائی سال کی عمر تک رہتی ہے اس مدت میں بچہ کی غذائی ضرورت و خواہش کا دار و مدار عورت کے دودھ پر ہوتا ہے جب تک وہ دودھ نہیں پیتا اس کی بھوک ختم نہیں ہوتی لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ بڑی عمر میں یعنی مدت رضاعت ختم ہو جانے کے بعد کسی عورت کا دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اور وہ شخص جو اس وقت حضرت عائشہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور جسے حضرت عائشہ نے اپنا دودھ شریک بھائی کہا تھا اس نے دراصل بڑی عمر میں دودھ پیا تھا اور چونکہ بڑی عمر میں دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا حضرت عائشہ کے پاس بیٹھنا نا گوار ہوا۔