مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ معاملات میں نرمی کرنے کا بیان ۔ حدیث 38

تجارت کے ساتھ صدقہ وخیرات کا حکم

راوی:

وعن قيس بن أبي غرزة قال : كنا نسمى في عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم السماسرة فمر بنا رسول الله صلى الله عليه و سلم فسمانا باسم هو أحسن منه فقال : " يا معشر التجار إن البيع يحضره اللغو والحلف فشوبوه بالصدقة " . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه

قیس بن غرزہ (جو سوداگری کرتے تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم لوگوں کو یعنی سودا گروں کو سماسرہ کہا جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دن کا ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہماری طرف ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے طبقے کا ایک ایسا نام عطا کیا جو ہمارے پہلے نام سے کہیں بہتر ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے طبقہ تجار تجارت میں اکثر بے فائدہ باتیں اور بہت زیادہ قسم یا کبھی کبھی جھوٹی قسم کھانے کی صورتیں پیش آتی رہتی ہیں اس لئے تم تجارت کو صدقہ وخیرات کے ساتھ ملائے رکھو (ابوداؤد ترمذی نسائی ابن ماجہ)

تشریح :
سماسرہ دراصل لفظ سمسار کے جمع کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں دلال یا کسی چیز کا مالک و منتظم چنانچہ پہلے زمانے میں تجارتی کاروبار کرنے والے کو سمسار ہی کہتے ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اس سے بہتر نام یعنی تجارج ولفظ تاجر کی جمع کا صیغہ ہے عطاء کیا اس نام کے بہتر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خرید وفروخت کے کاروبار کو مدحیہ طور پر لفظ تجارت کے ساتھ ذکر کیا ہے جیسے ایک آیت کی عبارت کا یہ ٹکڑا ہے (هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ) 61۔ الصف : 10) (کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے ) یا ایک اور آیت میں ہے (تجارۃ عن عراض) (سوداگری آپس کی رضا مندی سے ) یا ایک آیت کے یہ الفاظ تجارۃ (لن تبور) (تجارت کرو ہلاکت میں نہ پڑو)
فشوبوہ بالصدقۃ(تجارت کو صدقہ وخیرات کے ساتھ ملائے رکھو کا مطلب یہ ہے کہ تجارتی زندگی میں عام طور پر بے فائدہ باتیں اور جھوٹی سچی قسموں کا صدور ہوتا رہتا ہے اور یہ دونوں ہی چیزیں پروردگار کے غضب وغصہ کا باعث ہیں اس لئے تم ان دونوں چیزوں کے کفارہ کے طور پر اپنا کچھ مال صدقہ وخیرات کرتے رہا کرو کیونکہ صدقہ وخیرات اللہ تعالیٰ کے غضب وغصہ کو دور کرتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں