رضاعی بھتیجی سے نکاح کرنا حرام ہے
راوی:
وعن علي رضي الله عنه قال : يا رسول الله هل لك في بنت عمك حمزة ؟ فإنها أجمل فتاة في قريش فقال له : " أما علمت أن حمزة أخي من الرضاعة ؟ وإن الله حرم من الرضاعة ما حرم من النسب ؟ " . رواه مسلم
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے چچا (حضرت حمزہ) کی لڑکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اپنے نکاح کے لئے) کیوں پسند نہیں ہے؟ وہ تو قریش کی جوان عورتوں میں ایک حسین ترین لڑکی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تہیں معلوم نہیں کہ حمزہ میرے دودھ شریک بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام قرار دیئے ہیں وہی رشتے رضاعت کی وجہ سے حرام قرار دیئے ہیں۔
تشریح :
یوں تو حضرت حمزہ ابولہب کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا تھے لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھائی بھی تھے، جس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ ابولہب کے ہاں ایک لونڈی تھی جس کا نام ثوبیہ تھا ثوبیہ نے پہلے حضرت حمزہ کو دودھ پلایا تھا اور پھر چار سال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دودھ پلایا یہ وہ ثوبیہ ہے جس نے جب ابولہب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی تو ابولہب نے بھیتجے کی پیدائش کی خوشی میں اس کو آزاد کر دیا ، بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر ابولہب نے اپنی اس خوشی و مسرت کا جو اظہار کیا تھا اس کی وجہ سے پیر کے دن حق تعالیٰ کی طرف سے ابولہب کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیر ہی کے دن پیدا ہوئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چار عورتوں نے دودھ پلایا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ نے، حضرت حلیمہ نے، ثوبیہ نے اور ام ایمن نے جو آپ کے والد محترم حضرت عبداللہ کی لونڈی تھی۔