مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان ۔ حدیث 378

حرمت رضاعت کا ذکر

راوی:

وعن عائشة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة " . رواه البخاري
(2/217)

3162 – [ 3 ] ( متفق عليه )
وعنها قالت : جاء عمي من الرضاعة فاستأذن علي فأبيت أن آذن له حتى أسأل رسول الله صلى الله عليه و سلم فجاء رسول الله صلى الله عليه و سلم فسألته فقال : " إنه عمك فأذني له " قالت : فقلت : يا رسول الله إنما أرضعتني المرأة ولم يرضعني الرجل فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنه عمك فليلج عليك " وذلك بعدما ضرب علينا الحجاب

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دودھ پینے کی وجہ سے وہ رشتے حرام ہوتے ہیں جو پیدائش کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں ( بخاری)

تشریح :
یعنی جو رشتے نسب کی وجہ سے ایک دوسرے کے لئے حرام ہیں وہی رشتے دودھ پینے کی وجہ سے بھی ایک دوسرے کے لئے حرام ہو جاتے ہیں مثلا جس طرح نسبی یعنی حقیق بہن اپنے بھائی کے لئے حرام ہے اسی طرح رضاعی بہن بھی حرام ہے۔ ہاں کچھ مسائل ایسے ہیں جو اس کلیہ سے مستثنی ہیں چنانچہ بعض صورتوں میں نسبی رشتہ اور رضاعی رشتہ کے درمیان فرق ہو جاتا ہے جس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے۔
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگرچہ رضاعت سے نکاح حرام ہو جاتا ہے اور نظر و خلوت اور مسافرت حلال ہو جاتی ہے ( یعنی مثلا رضاعی ماں بیٹے کے درمیان نکاح تو حرام ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے کی طرف نگاہ ڈالنا اور ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں اٹھنا بیٹھنا اور ایک دوسرے کے ساتھ تنہا سفر کرنا جائز ہو جاتا ہے لیکن رضاعی رشتہ پر نسبی رشتہ کے تمام احکام نافذ نہیں ہوتے چنانچہ رضاعی رشتہ میں نہ تو ایک دوسرے کا وراث ہوتا ہے، نہ ایک دوسرے پر نان و نفقہ واجب ہوتا ہے، نہ ایک دوسرے کی ملکیت میں آ جانے سے آزادی مل جاتی ہے اور اگر دودھ پلانیوالی اپنا دودھ پینے والے کو قتل کر دے تو اس کے ذمہ سے اس کا قصاص بھی ساقط نہیں ہوتا چنانچہ ان تمام صورتوں میں وہ دونوں رضاعی رشتہ دار بالکل اجنبیوں کی طرح ہوتے ہیں
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن میرے رضاعی چچا میرے گھر آئے اور انہوں نے میرے پاس آنیکی اجازت مانگی میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کر دیا تا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں کہ ان کا میرے پاس آنا درست ہے یا نہیں) چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہارے چچا ہیں ان کو اپنے پاس آنے کی اجازت دیدو حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ مجھ کو تو عورت نے دودھ پلایا تھا کسی مرد نے تو دودھ نہیں پلایا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تمہارے چچا ہیں اس لئے وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں (حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ ) میرے رضاعی چچا کی یہ آمد اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ ہمارے لئے اجنبی مردوں سے پردہ کرنا واجب ہو چکا تھا ( بخاری ومسلم)

تشریح :
حضرت عائشہ کے جن رضاعی چچا کا ذکر کیا گیا ہے ان کا نام افلح تھا اور حضرت عائشہ نے جس عورت کا دودھ پیا تھا اس کے خاوند ابوالقیس تھے اور وہ افلح کے بھائی تھے۔ اس رشتہ سے وہ حضرت عائشہ کے رضاعی چچا ہوئے۔
مجھ کو تو عورت نے دودھ پلایا الخ، سے حضرت عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ میں نے چونکہ عورت کا دودھ پیا ہے اس لئے میرا رضاعت کا تعلق تو عورت سے قائم ہوا ہے نہ کہ مرد سے گویا حضرت عائشہ یہ سمجھتی تھیں کہ کسی عورت کا دودھ پلانا اس کے خاوند کے قرابت داروں سے رضاعت کا تعلق قائم نہیں کرتا ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کے اس گمان کی تصحیح کی کہ کسی عورت کا دودھ پلانا جس طرح اس عورت سے اور اس کے قرابت داروں سے رضاعت کا رشتہ قائم کرتا ہے اسی طرح اس کے خاوند اور خاوند کے قرابت داروں سے بھی رضاعی تعلق پیدا کر دیتا ہے اور جس طرح رضاعی ماں کی بہن رضاعی خالہ اور اس کی بیٹی رضاعی بہن ہوتی ہے اسی طرح اس کے خاوند کا بھائی بھی رضاعی چچا ہوتا ہے اور رضاعی چچا چونکہ حقیقی چچا کی مانند ہے اس لئے افلح تمہارے پاس شوق سے آئیں ان سے کوئی شرم و پردہ نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح دودھ پلانیوالی کے قرابت داروں کے ساتھ حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے اس طرح اس کے خاوند کے قرابت داروں سے بھی حرمت رضاعت کا تعلق ہو جاتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں