متعلقہ ضروری مسائل
راوی:
یہاں تک محرمات کا ذکر پورا ہوگا اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس باب سے متعلق چند ضروری مسائل نقل کر دئے جائیں۔
نکاح متعہ باطل ہے اور جب کسی عورت سے اس طرح کا نکاح یعنی متعہ جائز نہیں ہوگا تو نہ اس سے جماع کرنا حلال ہو گا اور نہ اس پر طلاق واقع ہو گی اور نہ اس پر ایلاء اور ظہار کے احکام نافذ ہوں گے اسی طرح ان کے درمیان وارثت کا کوئی سلسلہ بھی قائم نہیں ہوگا۔
نکاح متعہ کی صورت یہ ہے کہ کوئی مرد کسی ایسی عورت سے جو موانع (یعنی کسی دوسرے کی زوجیت یا عددت وغیرہ) سے خالی ہو یہ کہے کہ میں مال کی اتنی مقدار مثلا ایک ہزار روپیہ کے عوض اتنی مدت مثلا دس روز کے لئے تمتع یعنی فائدہ اٹھاؤں گا یا یوں کہے کہ تم اتنے روپے کے عوض دس روز یا چند روز تک اپنے نفس سے مجھے متمتع یعنی بہرہ مد کرو اور جس طرح نکاح متعہ ناجائز ہے اسی طرح نکاح مؤقت بھی ناجائز ہے اور نکاح مؤقت میں مدت قلیل ہو یا کثیر متعین ہو یا غیر متعین بہر صورت نکاح ناجائز ہو گا، ہاں اگر دونوں کسی ایسی مدت کا تعین کریں جو اتنی طویل ہو کہ اتنی مدت تک دونوں کا زندہ رہنا ناممکن ہو مثلا یہ کہیں کہ ہم نے ایک ہزار سال کے لئے نکاح کیا تو اس صورت میں نکاح مؤقت کا حکم جاری نہیں ہوگا بلکہ نکاح صحیح ہو جائے گا اور وقت کی شرط باطل ہو جائے گی ۔ جیسا کہ نکاح کا وقت وقوع قیامت یا خروج دجال یا نزول عیسی تک کی مدت بیان کرنے کی صورت میں نکاح کرنیوالے کا یہ خیال تھا کہ اس کو ایک سال تک اپنے پاس رکھو گا پھر چھوڑ دوں گا تو اس صورت میں بھی نکاح صحیح ہو جاتا ہے ۔ اور اگر کسی شخص نے کسی عورت سے اس شرط پر نکاح کیا کہ ایک ماہ بعد طلاق دیدوں گا تو نکاح صحیح ہو جائے گا ۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے نکاح کے وقت عورت سے یہ شرط کی کہ میں دن میں تمہارے ساتھ رہا کروں گا رات میں نہیں تو یہ نکاح بھی صحیح ہو جائے گا ۔
اگر مرد و عورت دونوں احرام باندھے ہوئے ہوں تو ان کے لئے احرام کی حالت میں نکاح کرنا جائز ہے اسی طرح اگر کوئی ولی احرام باندھے ہوئے ہو تو احرام کی حالت میں اس عورت کا نکاح کر سکتا ہے جس کا وہ ولی ہے۔
ایک عورت نے (قاضی کی عدالت میں) کسی مرد مثلا زید کے بارے میں دعوی کیا کہ اس نے میرے ساتھ نکاح کیا ہے اور ثبوت کے طور پر اس نے دو گواہ بھی پیش کر دیئے ، قاضی نے فیصلہ کر دیا کہ زید اس عورت کا شوہر ہے حالانکہ واقعۃً زید نے اس عورت سے نکاح نہیں کیا تھا تو اس عورت کے لئے جائز ہو گا کہ وہ زید کے ساتھ رہنے لگے اور زید کے لئے یہ جائز ہوگا کہ اگر وہ عورت اس سے جماع کی خواہش ظاہر کرے تو اس سے جماع کرے۔
یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا قول ہے اور حضرت امام ابویوسف کا پہلا قول بھی یہی ہے لیکن ان کا دوسرا قول اس کے خلاف ہے اور حضرت امام محمد کے قول کے مطابق ہے امام محمد کا قول یہ ہے کہ اس صورت میں مرد کے لئے اس عورت سے جماع کرنا جائز نہیں ہوگا ۔ مسئلہ مذکورہ میں قاضی کا فیصلہ عقد نکاح کے حکم میں ہوگا (یعنی یہ سمجھا جائے گا کہ گویا قاضی نے اس وقت نکاح کر دیا اس لئے عورت کو مرد کے ساتھ رہنے اور امام اعظم کے قول کے مطابق اس کی خواہش پر زید کو اس سے جماع کرنے کی بھی اجازت ہے) لیکن شرط یہ ہے کہ اس وقت عورت میں نکاح کی صلاحیت ہو ( یعنی ایسا کوئی مانع موجود نہ ہو جو اس کو زید کی بیوی بننے سے روک دے) چنانچہ اگر یہ صورت ہو کہ قاضی کے فیصلہ کے وقت وہ عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہو یا پہلے شوہر کے طلاق دیدینے کی وجہ سے عدت کے دن گزار رہی ہو یا اس مرد یعنی زید نے اس کو تین طلاق دے رکھی ہوں تو پھر قاضی کا فیصلہ نافذ نہیں ہوگا اور یہ عورت زید کی بیوی نہیں بنے گی ۔ اسی طرح اکثر علماء کے نزدیک قاضی کے فیصلہ کے نفاذ کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس فیصلہ کے وقت گواہ بھی موجود ہوں اور اگر خود زید کسی عورت کے بارے میں دعوی کرے کہ میں نے اس عورت سے نکاح کیا تھا اور اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ پیش کرے تو اس کا بھی وہی حکم ہو گا جو اوپر ذکر کیا گیا ہے اسی طرح اگر کوئی عورت قاضی کی عدالت میں یہ دعوی کرے کہ میرے شوہر زید نے مجھے طلاق دیدی تھی اور اس نے جھوٹے گواہ بھی پیش کئے تو قاضی طلاق کا فیصلہ صادر کر دے گا باوجودیکہ وہ عورت جانتی ہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے لہذا قاضی کا یہ فیصلہ طلاق کے حکم میں ہوگا اور اس عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی اس کے بعد وہ عورت عدت کے دن گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے اور گواہ کے لئے بھی اس عورت سے نکاح کرنا جائز ہوگا نیز وہ عورت نہ تو پہلے شوہر زید کے لئے حلال ہوگی یعنی اس سے نکاح نہیں کر سکتی اور نہ اس کے لئے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنا جائز ہوگا، نیز وہ عورت اپنے پہلے خاوند یعنی زید کے لئے حرام ہو جائے گی لیکن حضرت امام ابویوسف یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں وہ عورت نہ تو پہلے شوہر زید کے لئے حلال ہوگی یعنی اس سے نکاح نہیں کر سکتی اور نہ اس کے لئے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنا جائز ہوگا، حضرت امام محمد کا یہ قول ہے کہ جب تک دوسرا مرد جس سے اس نے نکاح کر لیا ہو) اس سے جماع نہ کرے پہلے شوہر کے لئے حلال رہے گی اگر دوسرا مرد اس سے جماع کر لے گا تو پھر جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو جائے عدت واجب ہونے کی وجہ سے پہلے شوہر کے لئے حرام رہے گی، گویا امام محمد کے نزدیک دوسرے کے ساتھ اس کا نکاح سرے سے جائز ہی نہیں ہوتا۔
ایک شخص مثلا زید نے کسی عورت مثلا خالدہ کے بارے میں دعوی کیا کہ اس نے میرے ساتھ نکاح کیا تھا لیکن خالدہ نے اس سے انکار کیا اس کے بعد زید نے خالدہ سے صلح کرنی چاہی اور اس سے کہا کہ اگر تم اقرار کر لو تو میں تمہیں ایک سو روپے دوں گا ۔ خالدہ نے اقرار کر لیا تو اب زید پر یہ مال یعنی خالدہ کو ایک سو روپیہ دینا واجب ہوگا اور خالدہ کا یہ اقرار عقد نکاح سمجھا جائے گا چنانچہ خالدہ نے یہ اقرار اگر گواہوں کے سامنے کیا ہوگا تو نکاح صحیح ہو جائے گا اور خالدہ کے لئے زید کے ساتھ رہنا عند اللہ بھی صحیح سمجھا جائے گا ( یعنی اس صورت میں وہ دونوں نہ صرف دنیاوی اور قانونی طور پر میاں بیوی سمجھے جائیں گے بلکہ اس کی وجہ سے ان پر کوئی گناہ بھی نہیں ہوگا) ہاں اگر خالدہ کے اقرار کے وقت گواہ موجود نہ ہوں گے تو نہ نکاح منعقد ہوگا اور نہ خالدہ کے لئے زید کے ساتھ رہنا جائز ہوگا۔