جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان
راوی:
اگر عورت کا دودھ(کسی جانور مثلا) بکری کے دودھ میں مخلوط ہوگیا اور عورت کا دودھ غالب ہے تو اس کے پینے سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر عورت نے اپنے دودھ میں روٹی بھگوئی اور روٹی نے دودھ کو جذب کر لیا یا اپنے دودھ میں ستو گھولا اور پھر وہ روٹی یا ستو کسی بچہ کو کھلا دیا تو اگر اس میں دودھ کا ذائقہ موجود ہو تو حرمت ثابت ہو جائے گی ۔ لیکن ذائقہ کی موجودگی کی شرط اسی صورت میں ہے جب کہ اس کو لقمہ لقمہ کر کے کھلایا جائے اور اگر گھونٹ گھونٹ کر کے پلایا گیا تو پھر اگر ذائقہ موجود نہ ہو تب بھی حرمت ثابت ہو جائے گی،
اگر عورت کا دودھ پانی یا دوا یا جانور کے دودھ میں مخلوط ہو گیا تو اس میں غالب کا اعتبار ہوگا یعنی اگر وہ دودھ غالب ہوگا تو اس کو پینے سے حرمت ثابت ہو جائے گی اور اگر پانی وغیرہ غالب ہوگا تو حرمت ثابت نہیں ہوگی) اس طرح اگر عورت کا دودھ کسی بھی پتیل سیال چیز یا کسی بھی جمی ہوئی چیز میں مخلوط ہو جائے تو غالب کا اعتبار ہوگا اور غالب سے مراد یہ ہے کہ اس کا رنگ بو اور ذائقہ تینوں چیزیں یا ان میں سے کوئی ایک چیز محسوس و معلوم ہو ۔ اور اگر دونوں چیزیں یعنی دودھ اور وہ چیز جس میں دودھ مخلوط ہو گیا ہے برابر ہوں تو حرمت کا ثابت ہونا ضروری ہو جائے گا کیونکہ دودھ مغلوب نہیں ہے۔
اگر دو عورتوں کا دودھ باہم مل گیا ہے تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف کے نزدیک اس عورت سے حرمت رضاعت ثابت ہوگی جس کا دودھ زیادہ اور غالب ہو لیکن حضرت امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں دونوں عورتوں سے حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی حضرت امام ابوحنیفہ کا ایک قول بھی اسی کے مطابق ہے اور یہی قول زیادہ صحیح اور اقرب الی الاحتیاط ہے اور اگر دونوں عورتوں کا دودھ برابر ہو تو متفقہ طور پر یعنی ان تینوں ائمہ کے نزدیک مسئلہ یہی ہے کہ دونوں عورتوں کے ساتھ حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی۔
اگر کسی عورت نے اپنے دودھ کا چھاچھ یا دہی یا پنیر اور یا ماوا وغیرہ بنا لیا اور اسے کسی بچہ کو کھلا دیا تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ اس پر رضاعت یعنی دودھ پینے کا اطلاق نہیں ہوتا۔
بستی و گاؤں کی کسی عورت نے ایک بچی کو دودھ پلایا مگر بعد میں یہ کسی کو بھی یاد ومعلوم نہیں رہا کہ وہ دودھ پلانیوالی عورت کون تھی اور پھر اس بستی کے کسی شخص نے اس لڑکی سے نکاح کر لیا تو یہ نکاح جائز ہو جائے گا ۔
عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بلا ضرورت کسی بچی کو اپنا دودھ نہ پلائیں اور اگر کسی بچہ کو اپنا دودھ پلائیں تو یاد رکھیں یا لکھ لیا کریں عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بلا ضرورت دوسروں کے بچوں کے منہ میں اپنی چھاتی دے دیتی ہیں اور انہیں دودھ پلا دیتی ہیں اور پھر بعد میں انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ کس بچہ کو میں نے اپنا دودھ پلایا ہے اس کی وجہ سے حرمت رضاعت کے احکام کی صریحًا خلاف ورزی ہوتی ہے لہذا اس بارے میں احتیاط ضروری ہے۔
دودھ خواہ پہلے پلایا ہو خواہ بعد میں پلایا گیا ہو حرمت رضاعت بہرصورت ثابت ہو جائے گی پہلے اور بعد میں کوئی فرق نہیں ہو گا لہذا اگر کسی شخص نے ایک شیرخوار بچی سے نکاح کر لیا اور پھر بعد میں اس شخص یعنی خاوند کی نسبی یا رضاعی ماں نے یا بہن نے یا لڑکی نے آکر اس کو اپنا دودھ پلا دیا تو یہ بچی اس شخص کے لئے حرام ہو جائے گی اور اس پر نصف مہر واجب ہوگا لیکن اس نصف مہر کے طور پر جو رقم وہ ادا کرے گا اسے وہ مرضعہ یعنی دودھ پلانیوالی سے وصول کر لے گا بشرطیکہ اس دودھ پلانیوالی نے محض شرارت یعنی نکاح ختم کرانے کے لئے اپنا دودھ پلا دیا ہو اور اگر اس نے شرارت کی نیت سے دودھ نہ پلایا ہو بلکہ وہ بچی بھوک سے بلک رہی تھی اور اس عورت نے ہمدردی کے جذبہ سے اسے دودھ پلا دیا تو پھر خاوند اس سے اپنی رقم کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
کسی شخص نے دو شیرخواربچیوں سے نکاح کیا اس کے بعد ایک اجنبی عورت نے آ کر ان دونوں بچیوں کو ایک ساتھ یا یکے بعد دیگرے دودھ پلا دیا تو وہ دونوں بچیاں شوہر کے لئے حرام ہو جائیں گی اور پھر اس کے بعد وہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے جسے وہ پسند کرے نکاح کر سکتا ہے ۔ اور اگر اس کے نکاح میں دو کی بجائے تین بچیاں ہوں اور اس عورت نے ان تینوں کو ایک ساتھ دودھ پلایا تو وہ تینوں حرام ہو جائیں گی اس کے بعد وہ ان تینوں میں سے جس سے چاہے نکاح کر سکتا ہے۔ اور اگر تینوں کو یکے بعد دیگرے پلایا تو پہلی دو تو حرام ہو جائیں گی اور تیسری اس کی بیوی رہے گی اور اگر پہلے تو دو بچیوں کو ایک ساتھ دودھ پلایا اور اس کے بعد تیسری کو پلایا تو بھی یہی حکم ہوگا۔ اور اگر پہلے ایک لڑکی کو پلایا اور بعد میں دو کو ایک ساتھ پلایا تو تینوں حرام ہو جائیں گی اور ان میں سے ہر ایک بچی کا نصف مہر اس پر واجب ہوگا جسے وہ دودھ پلانے والی سے وصول کرے گا بشرطیکہ اس نے شرارت کی نیت سے دودھ پلایا ہو اور اگر اس کے نکاح میں چار بچیاں ہوں اور اس عورت نے ان چاروں بچیوں کو ایک ساتھ یا یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے دودھ پلایا ہو تو چاروں حرام ہو جائیں گی اور اگر پہلے ایک کو اور پھر تین کو ایک ساتھ پلایا ہو تو بھی یہی حکم ہوگا اور اگر پہلے تین کو ایک ساتھ اور بعد میں چوتھی کو پلایا تو چوتھی حرام نہیں ہوگی۔
اگر کسی شخص نے ایک بڑی عورت سے اور ایک شیرخوار بچی سے نکاح کیا اور پھر بڑی نے چھوٹی کو اپنا دودھ پلا دیا تو شوہر کے لئے دونوں حرام ہو جائیں گی اب اگر اس شخص نے بڑی سے جماع نہیں کیا تھا تو اس کو کچھ مہر نہیں ملے گا اور چھوٹی کو اس کا آدھا مہر دینا واجب ہوگا جسے وہ بڑی سے وصول کرے گا بشرطیکہ اس نے شرارت کی نیت سے اسے دودھ پلایا ہو اور اگر اس نے دودھ شرارت کی نیت سے نہیں پلایا تو اس سے کچھ وصول نہیں کیا جائے گا اگرچہ اس بڑی کو یہ معلوم ہو کہ یہ چھوٹی بچی میرے شوہر کی بیوی ہے۔
رضاعت دودھ پلانے کا ثبوت دو باتوں میں سے کسی ایک بات سے ہو جاتا ہے ایک تو اقرار یعنی کوئی عورت خود اقرار کرے کہ میں نے فلاں کو دودھ پلایا ہے اور دوسرے گواہی یعنی گواہ یہ گواہی دیں کہ فلاں عورت نے فلاں بچے کو دودھ پلایا ہے) اور رضاعت کے سلسلہ میں گواہی یا تو دو مردوں کی معتبر ہوتی ہے یا ایک مرد اور دو عورتوں کی بشرطیکہ وہ عادل ہوں۔
(حرمت رضاعت کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان) جو تفریق جدائی ہوتی ہے وہ قاضی کے حکم کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے اور جب دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں کسی میاں بیوی کے درمیان رضاعت کے رشتہ کی گواہی دیں اور اس کی بنیاد پر قاضی ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دے تو عرت کو کچھ نہیں ملے گا بشرطیکہ اس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو اور اگر جماع ہو چکا ہوگا تو مہر مثل اور مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہوگی وہ مہر خاوند پر واجب ہوگا اور نفقہ و سکنہ یعنی کھانے پینے کا خرچ اور رہنے کے لئے مکان واجب نہیں ہوگا۔
اگر دو عادل مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں نے نکاح ہو جانے کے بعد شادی شدہ عورت کے سامنے گواہی دی اور کہا کہ شوہر کے ساتھ تمہارا رشتہ رضاعت ثابت ہوتا ہے) تو اس عورت کے لئے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ شہادت صحیح ہے بایں طور کہ جس طرح یہ شہادت اگر قاضی کے سامنے دی جاتی تو رضاعت ثابت ہو جاتی اور وہ دونوں کے درمیان تفریق کرا دیتا ہے) اسی طرح جب یہ شہادت عورت کے سامنے آئے گی تو اس کا حکم بھی وہ یہی ہوگا اور اگر رضاعت کی یہ خبر صرف ایک شخص دے اور اس عورت کے دل میں یہ بات پیدا ہو جائے کہ یہ شخص سچ کہہ رہا ہے تو شوہر سے پرہیز کرنا بہتر ہے لیکن واجب نہیں ہے۔
ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کے بعد ایک دوسری عورت نے آ کر ان دونوں میاں بیوی سے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے تو اس مسئلہ کی چار صورتیں ہوں گی،
-1 اگر دونوں میاں بیوی نے اس عورت کا اعتبار کر لیا تو نکاح فاسد ہو جائے گا اور عورت کو کچھ مہر نہیں ملے گا بشرطیکہ اس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو۔
-2 اگر دونوں میاں بیوی نے اس عورت کا اعتبار نہ کیا تو نکاح بحالہ باقی رہے گا لیکن اگر وہ عورت جس نے رشتہ رضاعت کی خبر دی ہے) عادل ہے تو پھر احتیاط کا تقاضہ یہی ہوگا کہ خاوند اپنی بیوی کو چھوڑ دے اب اگر اس نے چھوڑ دیا تو بہتر ہے کہ خاوند نصف مہر دیدے اور عورت کے لئے بہتر یہ ہے کہ کچھ نہ لے بشرطیکہ چھوڑنا جماع سے پہلے ہو اور اگر چھوڑنے سے پہلے جماع ہو چکا ہو تو مرد کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ اس کا پورا مہر بھی دیدے اور عدت کے ایام پورے ہونے تک نفقہ و سکنہ بھی دے اور عورت کے لئے بہتر یہ ہے کہ مہر مثل و مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہو وہ لے لے اور نفقہ وسکنہ نہ لے اور اگر خاوند نے بیوی کو نہیں چھوڑا یعنی اس نے طلاق نہیں دی) تو بیوی کو خاوند کے پاس رہنا جائز ہے اسی طرح اگر دو عورتوں نے یا ایک مرد اور ایک عورت نے یا دو غیر عادل مردوں نے یا غیر عادل ایک مرد اور دو عورتوں نے رضاعت کی گواہی دی تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا یعنی خاوند کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے۔
-3 اگر خاوند نے اس عورت کا اعتبار کیا اور بیوی نے اعتبار نہیں کیا تو نکاح فاسد ہو جائے گا اور مہر دینا واجب ہوگا
-4 اگر بیوی نے اس عورت کا اعتبار کیا مگر خاوند نے اس کا اعتبار نہیں کیا تو نکاح بحالہ باقی رہے گا لیکن بیوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ خاوند سے قسم کھلوائے کہ وہ واقعۃً اس عورت کی بات کو صحیح نہیں سمجھتا) اور اگر خاوند قسم کھانے سے انکار کر دے تو دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔
ایک مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا اور پھر کہنے لگا کہ یہ میری رضاعی بہن ہے یا اس کی طرف اسی قسم کے کسی اور رضاعی رشتہ کی نسبت کی اس کے بعد اس نے کہا کہ مجھے وہم ہو گیا تھا میں نے جو کچھ کہا تھا غلط تھا تو استحسانًا ان دونوں کے درمیان تفریق نہیں کرائی جائے گی بشرطیکہ وہ اپنی اس دوسری بات پر قائم رہے کہ میں نے جو کچھ کہا تھا غلط ہے) اور اگر وہ اپنی پہلی بات پر قائم رہے اور یہ کہے کہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ صحیح ہے تو اس صورت میں دونوں کے درمیان تفریق کرا دی جائے گی پھر اس کے بعد وہ اپنی پہلی بات سے انکار کرے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اور اگر عورت نے اپنے خاوند کی اس بات کی تصدیق کر دی تو اس کو کچھ مہر نہیں ملے گا بشرطیکہ اس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو ) اور اگر اس عورت کے ساتھ جماع ہو چکا ہو اور وہ اپنے خاوند کی اس بات کی تصدیق نہ کرے تو مرد پر اس کا پورا مہر اور نفقہ و سکنہ واجب ہوگا۔
اور اگر مرد نے کسی عورت کے بارے میں اس سے نکاح کرنے سے پہلے یہ کہا کہ یہ میری رضاعی بہن ہے یا رضاعی ماں ہے اور پھر بعد میں کہنے لگا مجھے وہم ہو گیا تھا یا مجھ سے چوک ہو گئی تھی ( یعنی میں نے پہلے جو کچھ کہا تھا غلط ہے) تو اس شخص کو اس عورت سے نکاح کرنا جائز ہو گا ۔ اور اگر اپنی سابقہ بات پر قائم رہا یعنی بعد میں اس نے کہا کہ میں نے جو کچھ پہلے کہا تھا وہ صحیح ہے تو اس صورت میں اس عورت سے اس کو نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر وہ اس کے باوجود نکاح کر لے تو ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی اور اگر وہ اپنے سابقہ اقرار ہی سے مکر جائے ( یعنی یہ کہنے لگے کہ میں نے یہ اقرار نہیں کیا تھا کہ یہ میری رضاعی ماں یا بہن ہے) لیکن دو شخص اس بات کی گواہی دیں کہ اس نے اقرار کیا تھا تو پھر اس صورت میں ان کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔
اگر کسی عورت نے کسی مرد کے بارے میں اقرار کیا کہ یہ میرا رضاعی باپ رضاعی بھائی یا رضاعی بھتیجا ہے لیکن مرد نے اس کا انکار کیا اور اس کے بعد پھر عورت نے بھی اپنے قول کی تردید کی اور کہا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی تو اس عورت سے نکاح جائز ہو جائے گا اور اسی طرح اگر مرد نے اس عورت سے نکاح کر لیا قبل اس کے کہ وہ عورت اپنے قول کی تردید کرتی تو نکاح صحیح ہوگا۔
اگر کسی مرد نے کسی عورت سے جو اس کے نکاح میں ہو اپنے نسبی رشتہ کا اقرار کیا یعنی یوں کہا کہ یہ عورت میری حقیقی ماں ہے یا حقیقی بہن ہے یا حقیقی بیٹی ہے اور اس عورت کا نسب کسی کو معلوم نہیں ہے نیز وہ مرد یہ صلاحیت رکھتا ہے (یعنی اس کے بارے میں یہ گمان ہو سکتا ہے کہ وہ عورت اس کی ماں یا بیٹی ہو تو ) اس مرد سے دوبارے پوچھا جائے گا اب اگر وہ یہ کہے کہ مجھے وہم ہو گیا تھا یا میں چوک گیا تھا ، یا میں نے غلط کہا تھا تو استحسانًا ان کا نکاح باقی رہے گا اور اگر دوبارہ پوچھے جانے پر اس نے یہ کہا کہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہی صحیح ہے تو پھر دونوں میں تفریق کرا دی جائے گی ۔ اور اگر مرد یہ صلاحیت نہیں رکھتا یعنی ان دونوں کی عمر میں اس قدر تفاوت ہے کہ وہ اس بات کا امکان نہیں رکھتا ) کہ وہ عورت جس عمر کی ہے اس عمر کی کوئی عورت اس کی حقیقی ماں یا اس کی حقیق بہن ہو سکے تو نسب ثابت نہیں ہوگا اور ان دونوں کے درمیان جدائی نہیں کرائی جائے گی اور اگر مرد نے اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ یہ میری حقیقی لڑکی ہے اور پھر بعد میں اپنی اس بات کی تردید بھی نہیں کی بلکہ اس پر اصرار کرتا رہا حالانکہ لوگوں کو اس لڑکی کا نسب معلوم ہے ( یعنی دنیا جانتی ہے کہ یہ لڑکی اس کی نہیں ہے بلکہ دوسرے کی ہے) تو ان دونوں کے درمیان جدائی نہیں کرائی جائے گی اور اسی طرح اگر اس نے یہ کہا کہ یہ میری حقیقی ماں ہے حالانکہ لوگوں کو اس کا نسب معلوم ہے ( یعنی سب جانتے ہیں کہ یہ اس کی ماں نہیں ہے) تو اس صورت میں بھی دونوں کے درمیان تفریق نہیں کرائی جائے گی
چوتھا سبب جمع کرنا : یعنی وہ عورتیں جو دوسری عورتوں کے ساتھ جمع ہو کر محرمات میں سے ہو جاتی ہیں اور ان کی دو قسمیں ہیں۔
(١) اجنبی عورتوں کو جمع کرنا (٢) ذوات الارحام کو جمع کرنا
پہلی قسم یعنی اجنبی عورتوں کو جمع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے جس قدر نکاحوں کی اجازت دی ہے ان سے زیادہ نکاح کرنا چنانچہ شریعت نے آزاد مرد کو ایک وقت میں چار نکاح تک کی اجازت اور غلام کو ایک وقت میں دو نکاح تک کی اجازت دی ہے لہذا کسی آزاد شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتوں کو جمع کرے (یعنی چار سے زیادہ عورتوں کو اپنی بیوی بنائے) اور غلام کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں دو سے زیادہ عورتوں کو جمع کرے آزاد شخص کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ ایک وقت میں جتنی چاہے بغیر نکاح باندیاں رکھے باندیاں رکھنے کی تعداد کی کوئی قید نہیں ہے لیکن غلام کو بغیر نکاح باندی رکھنا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ اس کا آقا اجازت دیدے آزاد شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے اور وہ چار عورتیں خواہ آزاد ہوں خواہ باندیاں ہوں اور آزاد دونوں ملی جلی ہوں۔
اگر کسی شخص نے پانچ عورتوں سے یکے بعد دیگرے نکاح کیا تو پہلی چار کا نکاح جائز اور پانچویں کا باطل ہوگا اور اگر پانچوں سے ایک ہی عقد میں نکاح کیا تو پانچوں کا نکاح باطل ہوگا اسی طرح اگر کسی غلام نے تین عورتوں سے نکاح کیا تو یہی تفصیل ہوگی کہ ان تینوں سے یکے بعد دیگرے نکاح کرنے کی صورت میں تو پہلی دونوں کا نکاح صحیح ہو جائے گا اور تیسری کا باطل ہوگا اور اگر تینوں سے ایک ہی عقد میں نکاح کیا تو تینوں کا نکاح باطل ہوگا۔
اگر کسی حربی کافر نے پانچ کافرہ عورتوں سے نکاح کیا اور پھر وہ سب یعنی بانچوں بیویاں اور شوہر مسلمان ہو گئے تو اگر یہ پانچوں نکاح یکے بعد دیگرے ہوئے تھے تو پہلی چار بیویاں جائز رہیں گی اور پانچویں بیوی سے جدائی کرا دی جائے گی اور اگر پانچوں نکاح ایک ہی عقد میں ہوئے تھے تو پانچوں کا نکاح باطل ہو جائے گا اور ان پانچوں سے شوہر کی جدائی کرا دی جائے گی۔
اگر کسی عورت نے ایک عقد میں دو مردوں سے نکاح کیا اور ان میں سے ایک شخص کے نکاح میں پہلے سے چار عورتیں تھیں تو اس کا نکاح اس دوسرے شخص کے ساتھ صحیح ہوگا ( جس کے نکاح میں پہلے چار بیویاں نہیں تھیں اور اگر ان دونوں کے نکاح میں پہلے سے چار بیویاں تھیں یا ان میں سے کسی ایک کے بھی نکاح میں چار عورتیں نہیں تھیں تو یہ نکاح کسی کے ساتھ بھی صحیح نہیں ہوگا۔
جمع کرنے کی دوسری قسم یعنی ذوات الارحام کو جمع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی دو عورتوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھا جائے گا جو آپس میں ذی رحم اور نسبی رشتہ دار ہوں چنانچہ دو بہنوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا حرام ہے اسی طرح دو بہنوں کو باندی بنا کر ان سے جماع کرنا بھی حرام ہے یعنی اگر دو بہنیں بطور باندی کسی کی ملکیت میں ہوں تو دونوں سے جماع نہ کیا جائے اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے خواہ وہ دونوں نسبی حقیقی بہنیں ہوں یا رضاعی بہنیں ہوں۔
اس بارے میں اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ ایسی دو عورتیں جو ایک دوسرے کی رشتہ دار ہوں اور ایسا رشتہ ہو کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو مرد فرض کر لیا جائے تو آپس میں ان دونوں کا نکاح درست نہ ہو خواہ وہ رشتہ نسبی حقیقی ہو یا رضاعی ہو تو ایسی دو عورتوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہوتا لہذا جس طرح دو حقیقی یا رضاعی بہنوں کو جمع کرنا حرام ہے اسی طرح لڑکی اور اس کی حقیی یا رضاعی پھوپھی کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا حرام ہے ایسے ہی کسی لڑکی اور اس کی حقیقی یا رضاعی خالہ یا اسی قسم کی کسی اور رشتہ دار کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ ہاں کسی عورت اور اس کے پہلے خاوند کی لڑکی کو جو اس عورت کے بطن سے نہیں ہے) بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے کیونکہ اگر اس عورت کو مرد فرض کر لیا جائے تو اس کے شوہر کی اس لڑکی سے اس کو نکاح کرنا جائز ہوگا بخلاف اس کے عکس کے کہ اگر اس لڑکی کو مرد فرض کر لیا جائے تو اس کے لئے اس عورت یعنی باپ کی بیوی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا ) اسی طرح کسی عورت اور اس کی باندی کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے بشرطیکہ پہلے اس باندی سے نکاح کیا ہو۔