متعہ کی ممانعت
راوی:
وعن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن متعة النساء يوم خيبر وعن أكل لحوم الحمر الإنسية
(2/213)
3148 – [ 9 ] ( صحيح )
وعن سلمة بن الأكوع قال : رخص رسول الله صلى الله عليه و سلم عام أوطاس في المتعة ثلاثا ثم نهى عنها . رواه مسلم
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے منع فرمایا ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے گدھوں کا گوشت کھانے سے بھی منع فرمایا ہے گھروں میں رہنے والے گدھوں سے مراد وہ گدھے ہیں جو لوگوں کے پاس رہتے ہیں اور باربرداری وغیرہ کے کام آتے ہیں جنگلی گدھا کہ جس کو گورخر کہتے ہیں حلال ہے اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
تشریح :
کسی متعینہ مدت کے لئے ایک متعینہ رقم کے عوض نکاح کرنے کو متعہ کہتے ہیں جیسے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ یہ کہہ کر نکاح کرے کہ فلاں مدت مثلا دو سال تک اتنے روپے مثلا ایک ہزار روپے ) کے عوض تم سے فائدہ اٹھاؤں گا نکاح کا یہ خاص طریقہ یعنی متعہ اسلام کے ابتداء زمانہ میں تو جائز تھا مگر بعد میں حرام قرار دیدیا گیا۔
علماء لکھتے ہیں کہ متعہ کے سلسلے میں تحقیقی بات یہ ہے کہ متعہ دو مرتبہ تو حلال قرار دیا گیا اور دو مرتبہ حرام ہوا، چنانچہ پہلی مرتبہ تو جنگ خیبر سے پہلے کسی جہاد میں جب صحابہ تجرد کی وجہ سے سخت پریشان ہوئے یہاں تک کہ بعض لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خصی کرانے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں متعہ کرنے کی اجازت دے دی ۔ پھر جنگ خیبر کے دن جو ٧ھ کا واقعہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لئے متعہ کو حرام قرار دیا چنانچہ جواز متعہ کا فسخ ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
اسی سلسلہ میں حضرت ابن عمر نے اپنی روایت میں یہ ذکر کیا ہے کہ جس طرح حالت اضطرار میں بھوکے کو مردار کھانے کی اجازت ہے اسی طرح اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس شخص کے لئے جو بسبب تجرد جنسی ہیجان کی وجہ سے حالت اضطرار کو پہنچ گیا ہو یہ اجازت تھی کہ وہ متعہ کر لے مگر جب بعد میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ حرام قرار دیا گیا تو) پھر صحابہ نے اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ متعہ کے طور پر جو بھی نکاح ہوا اسے باطل قرار دیا جائے۔
اس لئے ہر دور میں تمام اہل اسلام کا اس بات پر اجماع واتفاق رہا ہے کہ متعہ حرام ہے کیا صحابہ کیا فقہاء اور کیا محدثین سبھی کے نزدیک اس کا حرام ہونا ایک متفقہ مسئلہ ہے صحابہ میں صرف ابن عباس پہلے اضطرار کی حالت میں متعہ کو مباح سمجھتے تھے مگر جب حضرت علی المرتضی نے ان کو سخت تہدید کی اور متعہ کی قطعی و ابدی حرمت سے ان کو واقف کیا تو حضرت ابن عباس نے اپنے قول سے رجوع کر لیا اور وہ بھی اس کی حرمت کے قائل ہوگئے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس کا اپنے اباحت کے قول سے رجوع کرنا حدیث وفقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔
ہدایہ فقہ حنفی کی ایک مشہور ترین اور اونچے درجہ کی کتاب ہے ، اس کے مصنف اپنے عمل وفضل اور فقہی بصیرت ونکتہ رسی کے اعتبار سے فقہاء کی جماعت میں سب سے بلند مرتبہ حیثیت کے حامل ہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ متعہ کے سلسلہ میں انہوں نے حضرت امام مالک کی طرف قول جواز کی جو نسبت کی ہے وہ ان کی سخت علمی چوک ہے نہ معلوم انہوں نے یہ بات کہاں سے لکھ دی کہ امام مالک متعہ کے جائز ہونے کے قائل تھے۔ امام مالک بھی متعہ کو اسی طرح حرام کہتے ہیں جس طرح تمام اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے ۔ چنانچہ نہ صرف ابن ہمام نے ہدایہ میں مذکورہ امام مالک کی طرف قول جواز کی نسبت کو غلط کہا ہے بلکہ ہدایہ کے بعد فقہ کی جتنی بڑی کتابیں تالیف ہوئیں تقریبا سب ہی میں ہدایہ کی اس غلطی کو بیان کرنا لازم سمجھا گیا ہے۔