شغار کی ممانعت
راوی:
وعن ابن عمر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن الشغار والشغار : أن يزوج الرجل ابنته على أن يزوجه الآخر ابنته وليس بينهما صداق
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے آدمی سے اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کر دے کہ اس دوسرے شخص کو اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرنا ہوگا اور دونوں میں مہر کچھ نہ ہو (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام میں شغار جائز نہیں ہے۔
تشریح :
شغار دو آدمیوں کے درمیان ایک دوسرے کی بیٹی سے نکاح کرنے کی ایک خاص صورت کا نام ہے جیسے کہ زید بکر سے اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح زید سے کر دے گا ۔ اور ان دونوں کے نکاح میں مہر کچھ بھی متعین نہ ہو بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے کی بیٹی کا تبادلہ ہی گویا مہر ہو اس طرح کا نکاح زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے مگر اسلام نے اس سے منع کر دیا ہے۔
اس بارے میں فقہی اختلاف یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کے ہاں تو اس طرح کا نکاح سرے سے صحیح ہی نہیں ہوتا جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس طرح سے نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہو جائے گا اور مہر مثل دینا لازم ہوگا لیکن حکم یہ ہے کہ اس طرح کے نکاح سے اجتناب کرنا چاہئے۔