شوال کے مہینے میں نکاح کرنا مستحب ہے
راوی:
وعن عائشة رضي الله عنه قالت : زفت امرأة إلى رجل من الأنصار فقال نبي الله صلى الله عليه و سلم : " ما كان معكم لهو ؟ فإن الأنصار يعجبهم اللهو " . رواه البخاري
(2/212)
3142 – [ 3 ] ( صحيح )
وعنها قالت : تزوجني رسول الله صلى الله عليه و سلم في شوال وبنى بي في شوال فأي نساء رسول الله صلى الله عليه و سلم كان أحظى عنده مني ؟ . رواه مسلم
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال کے مہینے میں نکاح کیا اور پھر تین سال کے بعد شوال ہی کے مہینے میں مجھے رخصت کرا کر اپنے گھر لائے اب تم ہی بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں کون سی زوجہ مطہرہ مجھ سے زیادہ خوش نصیب تھی ( مسلم)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض جاہل لوگ شوال کے ماہ میں شادی بیاہ کرنے کو جو منحوس سمجھتے ہیں وہ بالکل غلط ہے بلکہ اس مہینہ میں شادی بیاہ کرنا یا دولہن کو رخصت کرا کر اپنے گھر لانا مستحب ہے۔ چنانچہ عرب میں بھی زمانہ جاہلیت کے لوگ یہی عقیدہ رکھتے تھے اور شوال میں نکاح کرنے اور دولہن کو گھر میں لانے کو برا سمجھتے تھے۔ اسی غلط عقیدہ کی تردید میں حضرت عائشہ نے یہ بات فرمائی کہ اگر شوال کے مہینہ میں شادی بیاہ کرنا اپنے اندر کوئی نحوست رکھتا ہے تو پھر آخر میں شادی میرے حق میں منحوس کیوں نہیں رہی جب کہ شوال ہی میں میرا نکاح ہوا اور شوال ہی کے مہینہ میں رخصت کرا کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئی اور اس بات کو دنیا جانتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں جو خوش نصیبی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مجھے نصیب ہوئی وہ کسی بھی زوجہ کو حاصل نہیں ہوئی۔